گھرواری کی خواتین کے ہاتھوں بان کی رسی کا ہنر اب بھی زندہ

سندھ کے ضلع جام شورو میں واقع گھرواری گاؤں کی خواتین کھجور کی بجائے 'پیش' کے درخت کی شاخوں سے بان کی رسی بناتے اپنا پورا دن گزار دیتی ہیں، تب کہیں جا کر چار پیسے ہاتھ آتے ہیں۔

بان کے پلنگ اور چارپائیاں ایک زمانے تک پاکستان میں گھروں کا حصہ رہے ہیں۔ گھر چھوٹا ہو یا بڑا، گاؤں میں ہو یا شہر میں، ہر جگہ ہی آرام دہ اور دیدہ زیب رنگوں سے سجے یہ پلنگ ہماری تہذیبی روایت سمجھے جاتے ہیں۔

کچھ لوگ اسے کھاٹ یا کھٹیا کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ 70، 80 کی دہائی تک  سادہ، کم قیمت اور ماحول دوست یہ فرنیچر ہمارے گھروں میں ہر جگہ نظر آتا تھا، لیکن پھر انداز اور سوچ بدلی اور ان کی جگہ لکڑی کی بھاری بھرکم مسہریوں، سٹیل اور پلاسٹک کے فرنیچر نے لے لی اور اب 'اولڈ فیشن' سمجھے جانے والے پلنگ اور چارپائیاں ثقافت کے نام پر گھرکے ایک کونے میں رکھے جاتے ہیں۔

لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ چارپائی بننے کے لیے یہ رسی کہاں سے آتی ہے اور یہ تیار کیسے کی جاتی ہے؟ عموماً ہمارے ہاں بان کی رسی بانس اور کجھور کی شاخوں سے بٹی جاتی ہے، کہیں کہیں سوتی دھاگے سے بٹی ہوئی رسی کا  استعمال بھی ہوتا ہے، لیکن سندھ میں بان بانس اور کجھور کے علاوہ 'پیش' سے بھی تیار کی جاتی ہے۔  

 'گھرواری کراچی سے دور سندھ کے ضلع جام شورو کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کی کل آبادی 1043 افراد پر مشتمل ہے جبکہ یہاں خواتین کی تعداد 483 ہے۔ یہاں کے مقامی مرد کھیتی باڑی کرتے ہیں جبکہ خواتین بان کی رسی بلتے بلتے اپنا پورا دن گزار دیتی ہیں، تب کہیں جا کر چار پیسے ہاتھ آتے ہیں۔

تقریباً ہر گھر کے در و دیوار  ایک ہی  بات کہتے نظر آتے ہیں کہ  یہاں 'غربت' بال کھولے سو رہی ہے۔ گاؤں میں داخل ہوں تو ایک طرف کچے مکان، بنجر زمین اور ننگ دھڑنگ بچے بھاگتے دوڑتے نظر آئیں گے تو دوسری طرف عمر رسیدہ خواتین سے لے  کر نو عمر بچیاں تک  کسی نہ کسی  کام میں مگن نظر آتی ہیں۔ درمیانی عمر کی خواتین کھلے میدان میں بٹی ہوئی رسی کو سکھا رہی ہوتی ہیں تو نوجوان  لڑکیاں شاخوں کو بار بار پانی میں بھگو رہی ہوتی ہیں۔ سندھ کی سخت  گرمی میں تپتی ہوئی ریت پر  ننگے پیر چلنا ہی مشکل امر نہیں بلکہ شاخوں کو کو ٹنے سے ہاتھوں اور پاؤں میں چھالے پڑ جانا بھی عام سی بات ہے۔ مسلسل سخت کام   کرنے اور پانی میں ہاتھ پاؤں بھیگے رہنے کی وجہ سے یہاں جلدی بیماریاں بھی عام ہیں۔

ان ہی خواتین میں سے ایک صغراں بی بی ہیں، جن کی عمر 40، 45 سال کے لگ بھگ ہے۔ صغراں غیر شادی شدہ ہیں، لیکن کنبے کو چلانے کے لیے خود سے جتن کرتی ہیں۔

انہوں نے بان کی رسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کجھور کے درخت کی شاخوں سے نہیں بلکہ 'پیش' کے درخت کی شاخوں سے  تیار کی جاتی ہے۔ 'پیش  بالکل  کھجی کی طرح  کا پودہ ہے اور سندھ  کی زمین پر خود ہی اگ آتا ہے۔ لوگ ان سے باسکٹ، ڈولیاں اور مختلف چیزیں بناتے ہیں، لیکن ہم رسی ہی بنا رہے ہیں، کیوں کہ اس کے خریدار زیادہ ہیں۔

صغراں نے کاشتکاری نہ کرنے کے حوالے سے بتایا کہ ہم پیش کا کام پچھلے تین چار سالوں سے کر رہے ہیں۔ 'پہلے زراعت کے کسی نہ کسی کام سے جڑے رہتے تھے، لیکن یہاں  زمین اچھی نہیں رہی اور آہستہ آہستہ نہری نظام سے پانی بھی کم ہوتا گیا، لہذا فصل بھی نہیں ہوتی۔ پہلے ہم دور کھیتوں میں جا کر بھی کھیتی باڑی کر لیتے تھے، لیکن یہ کام موسمی ہے۔ فصل اترتے ہوئے اور بوائی پر ہی کام ملتا تھا۔'

'ہمارے مردوں کی رسائی نواب شاہ، میر پور خاص اور سندھ کے دیگر شہروں کی  مارکیٹوں  تک نہیں تھی بلکہ  ٹھیکےدار ہم سے یہ کام کراتا تھا۔ پہلے ہم بڑے ٹھیکے داروں کے لیےکام کرتے تھے اور پورا دن کام کرکے بھی تھوڑا بہت مل جاتا تھا لیکن اب یہ ہوا ہے کہ سندھ یونین کونسل اینڈ  کمیونٹی اکنامک سپورٹ پروگرام کے تحت یونین کونسل کی سطح پر غریب ترین گھرانوں کو ان کی ضرورت کے تحت   قرضہ دیا  گیا، جس سے کم از کم یہ ہوا کہ ہم نے پہلی بار  براہ راست منڈی سے خام مال اٹھایا اور  یہ کام کیا اور پھر ہمارے گھر کے مردوں نے اسے بڑے شہروں کی مارکیٹوں میں پہنچایا۔ اب  کچھ عرصے سے یہ ہی سلسلہ ہے کہ ہم لوگ براہ راست  منڈی سے پیش کی شاخیں اٹھا رہے ہیں اور خود ہی اپنی محنت سے کیا ہوا کام مارکیٹ تک پہنچا رہے ہیں۔'

گھرواری گاؤں کے رہائشی امجد کا کہنا تھا کہ 'گاؤں کی عورتیں جب رسی تیار  کرلیتی ہیں تو ہم مال جام شورو ، حیدرآباد، نواب شاہ اور  سکھر کی مارکیٹوں کے ہول سیلروں تک پہنچاتے ہیں۔ ہم کئی گھرانے مل کر  گاڑی کر لیتے ہیں، اس طرح ہماری بچت ہو جاتی ہے۔'

جام شورو میں ڈسٹرکٹ منیجر  ٹی  آر ڈی  پی نسرین خان نے ہمیں بتایا کہ   'گھرواری ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اور یہاں غربت عام ہے، لیکن اب کچھ حالات اس حوالے سے بدلے ہیں کہ پیش کی شاخوں سے رسی اور دیگر  چیزوں کے کام نے یہاں گھریلو صنعت کی شکل اختیار کرلی ہے۔تعلیم کی کمی بھی ان گھرانوں کے  بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ ہم اس طرف بھی توجہ دے رہے ہیں۔ لوگوں کو سمجھایا ہے کہ بچوں کو تعلیم دیں اور بنیادی صحت اور صفائی ستھرائی کا خیال  رکھیں جبکہ انہیں اس حوالے سے بھی تیار کر رہے ہیں کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی کی طرف بھی آئیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سہون شہر کی رہائشی نسرین ان علاقوں  سے بخوبی واقف ہیں اور دو دہائیوں سے دیہی سندھ میں کمیونٹی سروس  دے رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 'ہم نے اپنی سروے رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ  غربت والے گھرانوں کی 52 خواتین  کو کمیونٹی انویسٹمنٹ فند دیا ہے۔'

نسرین  کا مزید کہنا تھا: 'خواتین  کو اس لیے بھی ٹارگٹ کیا کہ اس طرح  ہماری خواتین میں آگے بڑھ کر کام کر نے کا جذبہ بڑھے گا اور ہم نے دیکھا ہے کہ یہ خواتین اب اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے متعلق  ہم سے پوچھنے لگی ہیں اور خود  سے اپنے مسائل پر توجہ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔'

زینب شالمانی یونین کونسل  کی رہائشی ہیں اور گھرواری گاؤں میں کمیونٹی ریسورس پرسن کے طور پر کام کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا: 'اب ہم سب مل کر زندگی کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ضرورت مند خواتین کو ان کے کام کی مد میں 20 سے 30 ہزار کی رقم بطور قرضہ دی جاتی ہے اور سال کے اندر اندر یہ قرضہ چھوٹی اقساط کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ یہ پانچ سال کا پروجیکٹ  ہے، اس کے بعد سروے ہوگا۔ ہم نے مل کر کوشش کی ہے کہ پانچ سال کے اندر اندر  کم از کم  30 فی صد  تک غربت کو کم کر سکیں اور یہاں کے گھرانے اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین