ہزار روپے سے لاکھوں کی تنخواہ تک کا سفر آسان نہیں تھا: ڈاکٹر زرین

ایک مزدور کی محنتی بیٹی ڈاکٹر زرین کی کہانی، جن کی پہلی فیس ایک ہزار روپے تھی لیکن آج ان کی تنخواہ لاکھوں روپے ہے۔

ڈاکٹر زرین چین سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رہی ہیں( تصویر انیلا خالد)

وہ سوشل میڈیا کے ایک بڑے گروپ میں خواتین سےکچھ اس طرح مخاطب تھیں۔

’یہ کیا پڑھیں گے؟ مزدرو کے بچے مزدور ہی ہوتے ہیں۔ میں اکثر بچپن میں یہ سنتی تھی مگر یقین کریں یہ ضروری نہیں کہ مزدور کے بچے مزدور ہی رہیں۔ یہ ثابت کرنا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں اور میں نے یہ کر دکھایا ہے۔ میں ڈاکٹر زرین زہرا ہوں اور میں ایک محنتی مزدور کی مضبوط بیٹی ہوں۔‘

زرین کی باتیں متوجہ کرنے والی تھیں کیونکہ کم وسائل اور مشکل حالات میں کچھ کر دکھانے والوں کی کہانی میں زیادہ کشش اور طاقت ہوتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس طرح کی کہانیوں کا موازنہ اپنی زندگی کے مصائب و مشکلات سے کرتی ہے۔ نتیجتاً اس سوچ کا قلع قمع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ ناکامیوں کو اپنی منزل سمجھ کر وہیں بسیرا کر لیتے ہیں۔

زرین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انہیں زندگی میں جو کامیابیاں ملیں وہ سب محنت کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ انہوں نے خواتین کو اپنے پیغام میں کہا کہ اگر وہ زندگی میں کچھ کرنا چاہتی ہیں تو اس کے لیے محنت کرنا ازحد ضروری ہے۔ ’جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنی امی کو لوگوں کے کپڑے سیتے دیکھا تھا، ابو فیکٹری میں ملازمت کرتے تھے۔ میں سات سال کی بچی تھی جب میں نے بھی امی کے ساتھ سلائی میں ہاتھ بٹانا شروع کیا، امی کے ساتھ سلائی کا کام کرتے کرتے اکثر رات کے 12 بج جاتے۔‘

ڈاکٹر زرین کی کہانی صرف اتنی نہیں ہے، ان کا غمگین بچپن کس طرح تاب ناک مستقبل میں بدل گیا، اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ان کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو کیا۔ چونکہ زرین پوسٹ ڈاکٹریٹ کے حوالے سے چین کے شہر شینزین میں رہتی ہیں لہٰذا ان سے ٹیلیفون پر ہی بات ہو سکی۔

زرین نے اپنی بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ہمیشہ خود پر اعتماد قائم تھا کہ وہ ایک دن اپنے والدین کی زندگی کو راحتوں اور مسرتوں سے بھر دیں گی۔ ’یہ 2010 کی بات ہے، میں صبح سات بجے یونیورسٹی جاتی اور شام پانچ بجے واپس آتی۔ اس کے بعد بچوں کو گھر پر ٹیوشن پڑھاتی جس میں اکثر رات کے 12 بج جاتے۔ اس ٹیوشن کے مجھےمہینے کے ایک ہزار روپے ملتے تھے۔

’ان دنوں میں گھر کی واحد کفیل تھی کیونکہ میرے والد کو ٹی بی ہوا تھا اور وہ کوئی کام نہیں کر سکتے تھے۔ زندگی اسی طرح چلتی رہی، میں نے نہ صرف اپنی اور بہن بھائیوں کی تعلیم مکمل کی، گھر کےاخراجات پورے کیے بلکہ بہن کی شادی بھی کروائی، اور ہاں اپنی شادی بھی کی۔‘

زرین نے کہا کہ انہیں قسمت سے ایسے سسرال والے ملے جنہوں نے ان سے ایک تنکا بھی جہیز میں نہیں مانگا لہٰذا انہیں صرف ایک لاکھ روپے ہی خرچ کرنے پڑے۔ ’الحمداللہ میں اب پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رہی ہوں۔ میں نے بیجنگ سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ آج میری تنخواہ لاکھوں میں ہے۔ والدہ کو سلائی مشین سے نجات دلوائی۔ وہ آج کل میرے پاس چین میں ہیں۔ ان کو گھمایا، اچھا کھلایا اور پہنایا۔ میرے شوہر بھی پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں اور وہ بہت تعاون کرنے والے شوہر ہیں۔‘

زرین نے بتایا کہ انہوں نے ابتدا میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کی لیکچرر شپ حاصل کی۔ او جی ڈی سی ایل نے بھی انہیں پیشکش کی۔ انہیں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن میں جونئیر سائنس دان ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا، جو ذرین کے مطابق انہوں نے اپنی قابلیت اور اپنے بل بوتے پر حاصل کیا۔

’قائداعظم یونیورسٹی سے ایم ایس سی اور ایم فل کرنے کے بعد مجھے نہ صرف چین میں پی ایچ ڈی کی سکالرشپ ملی بلکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سکالرشپ بھی ملی۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ یہ سب میں نے کیسے کیا کیونکہ پڑھنے کے لیے تو کبھی وقت ملتا ہی نہیں تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زرین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شادی کے بعد انہیں پڑھائی کے ساتھ بچوں کی پرورش میں کافی چیلنجز کا سامنا ہوا جس کے بعد انہوں نے ایک ایسے طریقہ کار پر سوچ بچار شروع کر دیا جو سائنسی ہو اور جو بچوں کی پرورش میں معاون ثابت ہونے کے ساتھ والدین کے لیے آسانی بھی پیدا کرے۔

’میرے لیے دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ بچوں کی پرورش پر توجہ دینا بھی نہایت اہم تھا۔ میں نےتین غیر ملکی ماہر خواتین، جن کا تعلق کینیڈا اور متحدہ عرب امارات سے ہے، کی خدمات حاصل کرکے ایک فیس بک گروپ کا آغاز کر دیا تاکہ والدین میں بچوں کی پرورش کے حوالے سے شعور بیدار کیا جا سکے اور وہ اس حوالے سے جدید ریسرچ سے باخبر رہیں۔‘

ڈاکٹر زرین کے مطابق ان کے فیس بک گروپ، ’ارلی چائلڈ ہڈ اینڈ پیرینٹنگ ایجوکیشن آف پاکستان‘ میں نو ہزار والدین روزانہ کی بنیاد پر بچوں کی پرورش کے حوالے سے ماہرین کی آرا اور تحقیق سےاستفادہ کر رہے ہیں۔

’اصل مقصد یہ ہے کہ بچوں سے سکرین (موبائل، ٹی وی) کی عادت چھڑوائی جائے۔ پاکستانی والدین بچوں کو مصروف رکھنے کے لیےانہیں سکرین کے استعمال پر لگاتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ وہ بچوں کو روبوٹ سمجھتے ہیں اور جب بچے بات نہیں مانتے تو وہ انہیں مارتے ہیں اور ان پر غصہ کرتے ہیں۔ اس گروپ میں والدین کو یہی سکھایا جارہا ہے کہ وہ آسان طریقے سے کیسے بچوں کی پرورش کریں۔‘

زرین ارادہ رکھتی ہیں کہ وہ مستقبل میں اس گروپ کو ایک نان پرافٹ میگزین کا درجہ دیں جس میں صرف پیرینٹنگ پر تبصرے، ریسرچ اور مسائل پر بات ہوگی تاکہ ایک مثبت اور صحت مند معاشرے کی تشکیل ہو۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی