مالاکنڈ کے رسیلے پلئی مالٹے جنہیں بیرون ملک تحفے میں بھیجا جاتا ہے

باغبان شہباز خان کا کہنا ہے کہ پاکستان بھر سے لوگ یہ منفرد اور ذائقے دار پلئی مالٹے خریدنے آتے ہیں اور انہیں تحفے کے طور پر بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ کے علاقے پلئی میں سازگار آب ہوا اور پتھریلی مگر اچھی زمین کی وجہ سے یہاں کا مالٹا اپنے ذائقے میں لاجواب اور بے حد مشہور ہے۔

اس علاقے میں زیادہ تر زرعی زمینوں پر مالٹے کی باغات لگے ہوئے ہیں اور بارانی زمین ہونے کی وجہ سے ٹیوب ویل ان باغات کو سیراب کرتے ہیں۔

پلئی کے رہائشی اور باغبان شہباز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پچھلے پندرہ، بیس سال سے مالٹے کے باغات میں کام کر رہے ہیں، اس سے پہلے ان کے چچا ساٹھ، ستر سال تک اسی پیشے سے وابستہ رہے۔

انہوں نے کہا کہ پلئی کا مالٹا ملک میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ ’مالٹے تو پاکستان میں تقریباً ہر جگہ پر ہوتے ہیں لیکن اس مالٹے کا ذائقہ انتہائی منفرد اور اعلیٰ ہے، اس لیے یہاں سے مختلف ممالک مثلاً ملیشیا، دبئی، سعودی عرب وغیرہ میں لوگ اپنے پیاروں کو تخفے کے طور پر یہیں کا مالٹا بھیجتے ہیں۔‘

شہباز کے مطابق علاقے میں ایکسپرس وے بننے کے بعد اب پشاور، اسلام آباد، ملتان اور ملک کے کونے کونے سے لوگ اس مالٹے کے لیے آنے لگے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پلئی درہ سات دیہات پر مشتمل ہے اور شیر خانہ علاقے کے مالٹے بہت ذائقے والے ہوتے ہیں، پلئی درہ میں دو تین سو باغات میں پندرہ سے بیس ہزار مالٹے کے پودے ہوں گے۔

’پلئی میں ریڈ بلڈ مالٹا بھی ملتا ہے، دوسرے علاقے کے مالٹوں میں چھلکا زیادہ اور موٹا ہوتا ہے جبکہ یہاں کے مالٹے میں رس بہت زیادہ اور چھلکا کم ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ پلئی کا مالٹا دوسرے مالٹے سے تھوڑا مہنگا ہے، اس کے نرخ روزانہ کے حساب سے مختلف ہوتے ہیں، آج کل باغ میں ایک تھیلے کی قیمت چار سے چھ سو روپے تک ہے، اس کی پیکنگ تھیلے میں جبکہ باقی اقسام کے مالٹوں کی پیٹی میں ہوتی ہے۔

’ہمارے علاقے میں مالٹا نومبر سے شروع ہو کر مارچ تک چلتا ہے لیکن یہاں پر سب سے بڑا مسئلہ محدود مارکیٹ کا ہے کیونکہ مالٹے صرف درگئی، بٹ خیلہ وغیرہ تک جاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر پلئی مالٹے بیرون ملک بھیجے جائیں تو اچھے پیسے کمائے جا سکتے ہیں لیکن حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتی۔

باغبان شہباز نے گلہ کیا کہ یہاں کے کاشت کار اور بیوپاریوں کی ان کی محنت کا صلہ نہیں ملتا۔

’ہم حکومت وقت سے اپیل کرتے ہیں کہ جس طرح کینو یا دوسرے پھل ایکسپورٹ ہوتے ہیں اسی طرح پلئی کا مالٹا بھی ایکسپورٹ کرنے کا بندوبست کیا جائے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان