سری لنکا میں مسلمان شدت پسندی کی طرف کیسے مائل ہوئے؟

حملوں کے بعد جاری تحقیقات میں خودکش بمباروں کے بارے میں معلومات سامنے آ رہی ہیں۔

تصویر: اے ایف پی

گذشتہ اتوار کو ہونے والے حالیہ تاریخ کے بدترین دہشت گرد حملے کے بعد سری لنکا افراتفری اور غم میں ڈوبا رہا تاہم اب ان واقعات کی کڑیاں ملنا شروع ہو گئی ہیں۔ اس سلسلے میں خودکش بمباروں کے بارے میں معلومات اور ان کے مقاصد سامنے آنا شروع ہو گئے اور یہ کہ مقامی مسلمان کیسے شدت پسندی کی طرف مائل ہوئے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے ایک نوجوان شخص کمر پر بھاری بیگ لٹکائے نیگومبو کے سینٹ سیبسٹین گرجا گھر میں داخل ہوا اور پھر عبادت گزاروں سے کھچا کھچ بھرے گرجا کھر میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔  

ایسٹر کے روز بحر ہند کے اس جزیرے میں گرجا گھروں اور پر تعیش ہوٹلوں میں ہونے والے بم دھماکوں میں 250  سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے جن میں غیر ملکی شہری بھی شامل تھے۔ اس سے قبل حکومت نے بم دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 360 بتائی تھی تاہم بعد میں نظرثانی شدہ اعداد وشمار جاری کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اصل میں یہ تعداد 253 ہے۔

ادھر سری لنکا فوج کی جانب سے مشتبہ شدت پسندوں کی پناہ گاہوں پر چھاپوں کے دوران چھ بچوں سمیت کم از کم 15 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ دو انڈپینڈنٹ کے مطابق فوجی کارروائی میں اس وقت شدت آئی جب جمعے کی شب ایک عمارت میں تین دھماکے ہوئے۔

حکام کے خیال میں یہ دھماکے شدت پسندوں کی جانب سے خود کو بارودی مواد کے ذریعے اڑانے کی وجہ سے ہوئے۔

دوسری جانب سری لنکا کے اعلیٰ حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حملوں میں ملوث شدت پسند تنظیم کے لیڈر بھی ممکنہ طور پر ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پکڑ دھکڑ کا عمل بھی جاری ہے جس کے دوران داعش سے تعلق کے شبہے میں کم از کم 140 افراد کو حراست میں لینے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

اس دوران سری لنکا کی اقلیت مسلمان برادری شدید خوف کا شکار ہے، سری لنکا بھر میں کسی ’انتقامی کارروائی‘ کے پیش نظر جمعے کو مساجد کے باہر سخت سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے۔

کولمبو کے باہر ایک تانبے کی فیکٹری جہاں مبینہ طور پر بم بنائے گئے تھے، اور دارالحکومت میں مسالاجات کے امیر تاجر کا عالیشان گھر توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہی مقامات ہیں جہاں اس تاجر کے دو بنیاد پرست بیٹوں نے مبینہ طور پر بم دھماکوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ان بھائیوں کی تصاویر عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔

ان میں سے ایک کو ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ بتایا جا رہا ہے جس نے مبینہ طور پر بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم داعش یا خود ساختہ دولتِ اسلامیہ کی مدد سے اس بدترین دہشت گردی کو انجام دیا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس ( اے پی) کے مطابق جیسے جیسے بمباروں کا پس منظر اور ان کے مقاصد سامنے آئے ہیں تو سری لنکا، جو گذشتہ تقریباً تین دہائیوں سے خانہ جنگی کے دوران مختلف قسم کی داخلی دہشت گردی سے نمٹ رہا تھا، اب یہ سمجھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے کہ کس طرح مقامی مسلمان جو مجموعی طور پر سالوں سے پرامن طور پر زندگی بسر کر رہے تھے ایک بین الاقوامی عسکریت پسند نیٹ ورک میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک ایسے نیٹ ورک کا جس کا مقصد بڑے پیمانے پر لوگوں کا قتل عام  کرناہے۔

کولمبو  کے ایک پرسکوں علاقے میں واقع حملہ آوروں کا خوبصورت تین منزلہ گھر   کسی شدت پسند کا گڑھ  نہیں لگتا۔ مگر یہ وہی جگہ ہے جہاں ان دو بھائیوں نے ممکنہ طور پر حملوں کی منصوبی بندی کی اور جہاں دو بھائیوں میں سے ایک کی بیوی نے پولیس چھاپے کے دوران مبینہ طور پر خود کو، اپنے بچوں اور کئی پولیس اہلکاروں کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔

پولیس نے مبینہ خود کش بمباروں کے والد محمد یوسف ابراہیم  کو گرفتار کر کیا ہے، جو کالی مرچ اور دار چینی کے بڑے تاجر ہیں۔

حملہ آور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، ان میں سے ایک نے برطانیہ اور آسٹریلیا میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے ملک کے کاروباری اور سیاسی اشرافیہ سے مستحکم روابط بھی  قائم تھے۔ حملےسے قبل مقامی جم میں ورزش کی، فٹ بال کھیلی اور پھر کولمبو کے مضافات سے گاڑی بھی خریدی  ۔

اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاشی طور پر خوشحال یہ خاندان کیسے شدت پسندی کا شکار ہو گیا۔

اس کا جواب ماہرین یوں دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ مقامی مسلمانوں میں شدت پسندی آہستہ آہستہ سرایت کر گئی۔ایسٹر دھماکے شاید اچانک لگ رہے ہیں لیکن ماہرین کے نزدیک سری لنکن مسلمان انتہا پسندی کا طویل مدت سے شکار ہیں۔

دہشت گردی کے ماہر روہن گنارتہ کا کہنا ہے کہ ملک میں مسلمان ایک ’ماڈل کمیونٹی‘ کے طور پر جانے جاتے تھے جہنوں نے 2009 میں ختم ہونے والی خانہ جنگی میں تامل ٹائیگر باغیوں کے خلاف حکومت کا ساتھ دیا۔

امریکہ میں 2001 حملوں کے تناظر میں عراق پر امریکی حملوں کے بعد سعودی عرب اور پاکستان سے انتہا پسند مبلغین سری لنکا آنا شروع ہو گئے تھے۔

روہن کے مطابق اس دوران انتہا پسندوں نے آن لائن نفرت سے متعلق پوسٹس کے ذریعے بھی مقامی مسلمانوں کو بڑھکانا شروع کر دیا تھا۔

’اس قسم کی سرگرمیوں سے مقامی مسلمان روایتی مذہبی مساوات اور رواداری سے ہٹ گئے جو اسلام کا ایک خوبصورت روپ ہے کیونکہ اس نے ہمیشہ دوسرے مذاہب کو جگہ دی ہے، اس میں دوسرے مذہبی گروہوں کے لیے برداشت موجود تھی۔ لیکن مشرق وسطی سے آنے والی انتہا پسندی سب کچھ بہا لے گئی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا