گاڑیوں کی ’اون منی‘ معیشت کو کس طرح تباہ کر رہی ہے؟

پوری دنیا میں گاڑیوں پر اون منی کا کوئی تصور نہیں ہے، جبکہ پاکستان میں اس کے بغیر فوراً گاڑی کی خریداری تقریباً ناممکن ہے۔

بعض گاڑیوں کی اون منی پانچ لاکھ سے بھی زیادہ ہے (اے ایف پی)

عرفان احمد کے پاس دو کروڑ روپے سرمایہ تھا۔ انہوں نے سوچا کہ ایک بڑی گاڑی ذاتی استعمال کے لیے خرید لیں اور باقی کسی کاروبار میں لگا لیں۔ وہ کار ڈیلر شپ پر گئے، پے آرڈر جمع کروایا اور گاڑی بک کروا لی۔ چار ماہ بعد گاڑی پہنچ گئی۔

سیلزمین نے فون کیا کہ ’آئیں اور گاڑی لے جائیں۔‘ جب عرفان گاڑی لینے ڈیلر شپ پہنچے تو سیلزمین نے کہا کہ ’گاڑی کا ایک گاہک آیا ہے، تین لاکھ روپے اون مل رہا ہے، اگر آپ کہیں تو گاڑی بیچ دوں؟‘

عرفان کو جب اچھا منافع آتا دکھائی دیا تو انہوں نے گاڑی بیچ دی۔ ڈیلر شپ کو 40 فیصد کمیشن دیا اور ایک لاکھ 80 ہزار کا منافع لے کر گھر چلے گئے۔ گھر پہنچنے سے پہلے ہی وہ فیصلہ کر چکے تھے کہ اب انہیں یہی کام کرنا ہے۔ انہوں نے اگلے دن مارکیٹ کا سروے کیا۔ مختلف گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی ڈیلر شپس سے اون منی یا پریمیم پر گاڑیاں بیچنے کے قواعد و ضوابط کی تفصیل لی۔

انہیں اندازہ ہوا کہ اون منی کا کاروبار بھی ایک مکمل سائنس ہے۔ اس میں رقم ڈوبنے کے امکانات کم ہیں، اگر زیادہ سے زیادہ نقصان بھی ہوا تو پریمیم کا ہو گا۔ اصل سرمایہ کاری کی رقم محفوظ رہے گی، لیکن تھوڑی سی بے احتیاطی بڑے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

انہیں معلوم ہوا کہ کچھ کمپنیوں کی گاڑیاں ایک ماہ میں ڈیلیور ہو جاتی ہیں اور کچھ کی چھ ماہ بعد ملتی ہیں۔ ایک ماہ میں ملنے والی گاڑی کا پریمیم کم اور چھ ماہ والی کا زیادہ ہے۔ جس بات نے انہیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا وہ یہ تھی کہ کچھ کمپنیوں کی رجسٹرڈ ڈیلر شپس اون منی میں سے اپنا حصہ وصول کرتی ہیں اور جن ڈیلر شپس کے مالکان اون میں سے حصہ نہیں مانگتے ان کے سیلز مین کو کمیشن دینا پڑتا ہے۔ اس کاروبار میں سیلز مین ایک ایسا کردار ہوتا ہے جس کا ایک روپے کا بھی سرمایہ نہیں ہوتا لیکن وہ ایک گاڑی بُک کرنے اور بیچنے کے مراحل میں چار مرتبہ پیسے کماتا ہے۔

سب سے پہلے جب وہ گاڑی بُک کرتا ہے تب ایک مخصوص کمیشن اسے کار کمپنی کی جانب سے ملتا ہے۔ دوسری مرتبہ اس وقت پیسہ کماتا ہے جب گاڑی اون پر بیچتا ہے تو نئے خریدار کو اون کم کروانے کا لالچ دے کر اپنا حصہ وصول کر لیتا ہے۔ پیسہ کمانے کا تیسرا موقع گاڑی کے مالک سے اون میں سے دس فیصد کمیشن وصولی ہے اور چوتھا موقع کار خریدار سے زیادہ اون منی وصول کر کے کار مالک کو کم رقم بتا کر اون منی کا ایک حصہ اپنی جیب میں ڈالنا ہے۔ سیلز مین کی سو فیصد کوشش ہوتی ہے کہ دونوں پارٹیوں کی ملاقات نہ ہو۔ اگر مالک ملاقات کی ضد کرے تو اگلی مرتبہ اس کی گاڑی کی فروخت میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دی جاتی ہیں۔

انہیں بتایا گیا کہ یہ کاروبار پے آرڈرز پر ہوتا ہے لیکن سیلزمین آپ کو کیش ٹرانزیکشنز کرنے پر زور دیتے ہیں، جو کہ فراڈ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جتنی گاڑیاں بُک ہوتی ہیں اتنے ہی پے آرڈرز بھی جمع ہوتے ہیں، لیکن عمومی طور پر پے آرڈر پر کمپنی یا فرد کا نام نہیں ہوتا۔ سیلزمین کسی کسٹمر کو کیش پر گاڑی بک کروانے پر آمادہ کرکے کیش وصول کرتے ہیں۔

وہ کوئی بھی پے آرڈر اس کی بکنگ کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور کسٹمر کا کیش ایک دو ماہ تک ذاتی استعمال میں لے آتے ہیں۔ ان پیسوں سے ایسی گاڑی کی نئی بکنگ کر دیتے ہیں جو ایک ماہ میں ڈیلیور ہو جاتی ہے۔ ایک ماہ بعد گاڑی بیچ کر اون کماتے ہیں اور اگلے ماہ پرانے کسٹمر کی گاڑی بکنگ آگے بھجواتے ہیں۔ اس طرح سیلز مین کسٹمرز کے پیسوں سے ذاتی کاروبار کرتے ہیں۔

جہاں تک بات رہ گئی کار ڈیلر شپ کی تو ان کا چیک اینڈ بیلنس اتنا مضبوط نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے کسٹمر کی فائل کئی دنوں تک سیلز مین کی میز پر پڑی رہتی ہے، وہ اسے آگے بھجواتا ہی نہیں ہے اور پیسوں کو ذاتی مفاد کے لیے گھماتا رہتا ہے۔ انہیں ایک انویسٹر نے مشورہ دیا کہ اگر یہ کاروبار کرنا ہے تو صرف پے آرڈرز پر کرنا، کیش پر کاروبار کرنے سے فراڈ اور پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی گاڑی بُک کرواؤ گے تو ایک کمپیوٹرائزڈ نمبر کا میسج موبائل پر موصول ہوتا ہے، جو کہ آپ کی بکنگ کو کنفرم کرتا ہے۔ اگر ایک دو دن تک میسج موصول نہ تو ڈیلر شپ پر جا کر انکوائری کریں اور معاملے کی تحقیق کریں کہ کہیں آپ کی بکنگ کا پے آرڈر یا کیش کسی اور کے کھاتے میں تو نہیں ڈال دیا گیا۔ اگر ڈیلر شپ تعاون نہ کرے تو کار کمپنی کے ہیڈ آفس رابطہ کر کے شکایت درج کروائیں۔ تھوڑی سی لاپروائی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

ایک کمپنی کے سیلزمین نے عرفان احمد کو اپنا پکا کسٹمر بنانے کے لیے ٹیکنیکل طریقے بھی سمجھائے۔ انہیں بتایا گیا کہ ایک سال میں ایک شناختی کارڈ پر صرف ایک گاڑی بُک کروائی جا سکتی ہے۔ اگر آپ نے سال کی دس بارہ گاڑیاں بیچنی ہیں تو اپنے بھائی، بیٹے، بیوی، بیٹی یا کسی دوست کے شناختی کارڈ پر گاڑی بک کروا لیں۔ ایک سال بعد پھر اسی ترتیب سے نئی گاڑیاں بک کروا لیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اگر آپ بڑے انویسٹر ہیں اور سال میں سینکڑوں گاڑیاں بک کروانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک کمپنی بنا لیں۔ جو کہ اے او پی یعنی کہ ایسوسی ایشن آف پرسنز ہو یا پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہو۔ اس کا نیشنل ٹیکس نمبر بنوائیں اور پھر اس ایک این ٹی این پر چاہے ایک ہزار گاڑیاں بیک وقت بُک کروائیں۔ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ طریقہ کار یہ ہو گا کہ کمپنی کے لیٹر ہیڈ پر ایک درخواست لکھی جائے گی کہ کمپنی کو ذاتی استعمال کے لیے گاڑیاں درکار ہیں۔ جیسے ہی گاڑیاں آئیں گی انہیں اون پر بیچ دیا جائے گا۔

عرفان نے پوچھا کہ ’لیٹر میں تو یہ لکھا ہے کہ گاڑیاں ذاتی استعمال کے لیے منگوائی گئی ہیں۔ استعمال کیے بغیر بیچ دینے سے کوئی پوچھ گچھ تو نہیں ہو گی؟‘

سیلز مین نے کہا کہ ’یہ پاکستان ہے۔ یہاں سب چلتا ہے۔ کار کمپنی کا ایسا کوئی طریقہ کار نہیں ہے جس سے انکوائری ہو سکے۔ وہ اس میں کوئی دلچسپی بھی نہیں رکھتے اور جنہوں نے پوچھ گچھ کرنی ہے وہ خود اس کاروبار میں شامل ہیں۔‘

عرفان نے پوچھا کہ ’حکومت اس پر پابندی تو نہیں لگا دے گی؟‘

سیلز مین نے کہا کہ ’پچھلے بیس سال سے تو ہم یہی سنتے آ رہے ہیں کہ حکومت اس پر پابندی لگا رہی ہے لیکن آج تک نہیں لگا سکی۔ ہم سے زیادہ بڑے انویسٹروں کا کھربوں روپیہ اس کاروبار میں لگا ہے۔ انہوں نے اپنے سرمائے کی حفاظت کے لیے حکومتی انتظامات کر رکھے ہیں۔ اس کاروبار میں زیادہ تر وائٹ کالر لوگ شامل ہوتے ہیں۔ جو اپنے دفتروں میں نوکریاں کرتے ہیں اور فون پر ہی گاڑیوں کا کاروبار چلاتے ہیں۔ ان میں سرکاری، نیم سرکاری اور نجی تمام لوگوں کا سٹیک ہے۔ لہٰذا تسلی رکھو یہ کاروبار ایسے ہی چلتا رہے گا۔‘

گاڑیاں بیچنے میں پیش آنے والی مشکلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ اگر گاڑیاں کسی اور کے نام بُک کروائیں گے تو بیچنے کے لیے انہیں سائن انگوٹھے لگانے کے لیے خود آنا پڑے گا۔ جو کہ مشکل ہوگا۔ انہیں یہ بتایا گیا کہ جب گاڑی بک کروائیں تو اسی وقت فروخت کے کاغذات پر اس کے دستخط لے لی٘، تا کہ سیل کے وقت اس کی ضرورت نہ پڑے۔ اگر کمپنی بنا لیں گے تو کسی کے بھی سائن کر کے کمپنی کی مہر لیٹر ہیڈ اور سرکاری کاغذوں پر لگانا ہوتی ہے۔ گاڑی ٹرانسفر ہو جاتی ہے۔

انہیں معلوم ہوا کہ جن کمپنیوں کی گاڑیاں زیادہ ڈیمانڈ میں ہیں، ان کی ڈیلر شپس 40 اور 60 فیصد کے ساتھ کاروبار کرتی ہیں، یعنی کہ اون یا پریمیم منی کا 40 فیصد ڈیلر شپ اور 60 فیصد انویسٹر کا ہوگا۔ اگر انویسٹر ایسا نہیں کرتا تو اس کی گاڑی ڈیلر شپ پر نہیں بیچی جائے گی۔ بلکہ انویسٹر کے نام پر نمبر لگوا کر فوراً گاڑی شو روم سے نکال دی جائے گی۔ جیسے ہی گاڑی کو نمبر لگ جاتا ہے وہ نئی گاڑی تصور نہیں ہوتی۔ جس پر اون نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو بہت کم ملتا ہے۔

سیلز مین نے بتایا کہ گاڑیاں بُک کروانے سے بلیک منی کو وائٹ کرنے کی بھی سہولت مل جاتی ہے۔ آپ جتنی گاڑیاں بُک کروائیں گے اس پر سیلز ٹیکس اور اِنکم ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ وہ ٹیکس انویسٹر نئے خریدار سے وصول کر لیتا ہے، لیکن چالان اسے نہیں دینا ہوتا۔ کیونکہ چالان انویسٹر کے نام پر ہوتا ہے۔ نئے خریدار کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ انویسٹر اس ٹیکس کو اپنی ریٹرن میں ظاہر کر کے بلیک منی کو وائٹ کر سکتا ہے۔

عرفان کو یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر رجسٹرڈ یا نجی شو روم والے ایک پارٹنر شپ کمپنی رجسٹرڈ کروا کے کئی انویسٹروں کی گاڑیاں بُک کروا لیتے ہیں۔ ہر انویسٹر اپنے بینک اکاؤنٹ کا علیحدہ پے آرڈر دیتا ہے، جس سے منافع کی تقسیم میں آسانی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی وجہ سے بکنگ کینسل ہو جائے اور رقم واپس کرنا پڑ جائے تو جس کے نام سے پے آرڈر بینک سے جاری ہوا ہوتا ہے، اسی کے اکاؤنٹ میں رقم واپس منتقل ہوتی ہے۔ اس میں یہ پابندی بھی نہیں ہے کہ جو کمپنی گاڑیاں بُک کروا رہی ہے، پے آرڈرز بھی اسی کے بینک اکاونٹ کے ہوں۔ پے آرڈر کسی اور کے بینک اکاؤنٹ سے بھی ہو سکتے ہیں۔

عرفان ابھی تک اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں کسی اور کاروبار میں یہ سہولتیں اور منافع دکھائی نہیں دیتا۔ وہ اس کاروبار میں نہیں رہنے چاہتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے عام آدمی کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں، لیکن پیٹ پالنے اور گھر چلانے کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔

گاڑیوں کے اون یا پریمیم کے کاروبار سے بہت سے لوگوں کا روزگار تو چلتا ہے لیکن انویسٹروں کی جانب سے مصنوعی قلت پیدا کر کے عام آدمی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ اس کاروبار کو ختم کرنے کے بہت سے جتن کیے گئے لیکن ہر مرتبہ مافیا جیت جاتا ہے اور سرکار بیک فٹ پر چلی جاتی ہے۔ آج کل حکومتی حلقوں میں گاڑی پہلے اونر سے دوسرے اونر کو تین ماہ کے اندر بیچنے پر 50 ہزار سے دو لاکھ روپے ٹیکس لگانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ دوسرے کسٹمر سے تیسرے کو بیچنے کے لیے بھی کیا یہی اصول ہو گا۔ تین ماہ کا آغاز بکنگ کی تاریخ سے ہو گا یا ڈیلیوری کی تاریخ سے۔

ماہرین کی رائے یہ ہے کہ 50 ہزار سے دو لاکھ ٹیکس لگانے کے باوجود بھی منافع بچ جاتا ہے۔ ٹیکس ایک لاکھ سے پانچ لاکھ تک لگایا جائے۔ اس کے علاوہ ٹیکس لگانے کے ساتھ سزا کا بھی تعین کیا جائے، تا کہ حقیقی معنوں میں اون منی کو ختم کیا جا سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے بھی اس طرح کے کئی اعلانات کیے لیکن زیادہ دیر تک ان پر عمل درآمد نہیں کروایا جا سکا۔ کار کمپنیوں کے نمائندے چونکہ حکومتوں میں بھی ہوتے ہیں اس لیے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اگر اون پر پابندی لگائی گئی تو گاڑیوں کی فروخت کم ہو جائے گی، جس سے ٹیکس آمدن پر فرق پڑے گا۔ آٹو سیکٹر کے منافع میں کمی ہو گی۔ جس سے بے روزگاری بھی بڑھ سکتی ہے۔ اس کاروبار کے ترقی کرنے کی ایک وجہ سہولیات ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کو نیا شو روم کرائے میں نہیں لینا پڑتا۔ بجلی، گیس، پانی کے بلوں اور تنخواہوں کا جھنجھٹ نہیں ہے اور بیچنے کے لیے مارکیٹنگ ٹیم کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ سب سہولتیں آپ کو ڈیلر شپ چالیس فیصد شیئر کے بدلے مہیا کر دیتی ہے۔ ڈیلرشپ پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اون منی کا کاروبار روکنے کے لیے ڈیلر شپس پر کچھ پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے، جس کے لیے کار کمپنی اور حکومت کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔

پوری دنیا میں گاڑیوں پر اون منی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جبکہ پاکستان میں اس کے بغیر فوراً گاڑی کی خریداری تقریباً ناممکن ہے۔ اس میں جہاں حکومت قصور وار ہے وہیں کار بنانے والی کمپنیاں بھی بری الذمہ نہیں ہیں۔ کار کمپنیوں نے کئی سالوں سے اپنی کیپیسٹی عوامی ضرورت کے مطابق نہیں بڑھائی، جو کہ اس تصور کو تقویت دیتا ہے کہ کار بنانے والی کمپنیاں بھی شاہد اون منی سے مستفید ہوتی ہیں۔ یہ بات یقین سے تو نہیں کہی جا سکتی لیکن اس سے مکمل طور پر انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت