پنجاب میں خواجہ سرا سرکاری نوکریوں سے محروم

لیکچرار کی درخواست مسترد ہونے پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے والی فیضی پرامید ہیں کہ ان کے اس قدم سے پنجاب اور دوسرے صوبوں میں خواجہ سراؤں کے لیے ملازمتوں کے دروازے کھلیں گے۔

خواجہ سرا فیاض اللہ عرف فیضی کے مطابق وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم اے اردو  کرنے کے بعدایم فل کر رہی ہیں(تصویر فیاض اللہ)

پاکستان میں وفاقی حکومت خواجہ سراؤں کو تعلیمی اداروں میں داخلوں، سرکاری ملازمتوں، صحت کی سہولیات، شناختی کارڈ بنوانے سے متعلق قانون سازی کر چکی ہے۔

قومی اسمبلی نے ’ٹرانسجینڈررائٹس پروٹیکشن ایکٹ 2018‘ پاس کیا اور یہ قانون کا حصہ بھی بن چکا ہے۔ سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ بھی مختلف مقدمات میں واضح ہدایات جاری کر چکے ہیں جس کے مطابق خواجہ سراؤں کو دوسرے شہریوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہوں گے، نیز جنسی امتیاز کی بنیاد پر انہیں بنیادی یا ریاستی حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔

آئینی طور پر حقوق تسلیم ہونے کے باوجود پنجاب میں خواجہ سراؤں کو تعلیم اور نوکریوں سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خواجہ سراؤں  کے مطابق پنجاب میں ابھی تک کسی بھی سرکاری ادارے میں پڑھے لکھے اور مطلوبہ شرائط پر پورا اترنے والے خواجہ سرا کو نوکری نہیں ملی۔

پنجاب پبلک سروس کمشن کی جانب سے لیکچرار بھرتی ہونے کے لیے ایک خواجہ سرا فیاض اللہ عرف فیضی کی درخواست مسترد کیے جانے پر لاہور ہائی کورٹ نے بھرتیوں کا عمل روک کر حکام سے وضاحت طلب کر لی، جس کے بعد خواجہ سراؤں  کو امید ہے کہ یہ کیس ان کے لیے پنجاب سمیت دوسرے صوبوں کے محکموں میں نوکریوں کے دروازے کھولنے کا ٹیسٹ کیس بن سکتا ہے۔

خواجہ سراؤں  کو نوکریاں دینے سے متعلق قانون:

خواجہ سرا حقوق سے متعلق کیسز کی پیروی کرنے والے قانون دان علی زیدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 27 میں واضح لکھا ہے کہ کسی بھی شہری کو اقلیت، نظریاتی اختلاف یا جنسی امتیاز کی بنیاد پر حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔

اس کے علاوہ قومی اسمبلی 2018 کے ایکٹ کو قانون بنا چکی ہے جس کے تحت ٹرانسجینڈرز کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق قانونی حق حاصل ہوگا کہ وہ سرکاری نوکریوں، تعلیمی سہولیات، صحت و دیگر ضروریات پاکستان کے عام مرد یا خواتین شہریوں کی طرح لینے کا حق رکھتے ہیں۔ نیز ان کی مرضی کے مطابق ان کی جنس تشخیص کی جائے گی، خواجہ سرا چاہے مرد کیٹیگری رکھے یا خاتون، اس پر اعتراض نہیں ہوسکے گا۔

علی زیدی کے مطابق پنجاب میں کوئی بھی سرکاری محکمہ اپنے طور پر بھرتیاں کرے یا پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت بھرتیاں ہوں خواجہ سراؤں کو جنسی امتیاز کی بنیاد پر مسترد کردیا جاتا ہے جو ’غیر آئینی اور غیر اخلاقی‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی اداروں میں یہ معاملہ حل ہوچکا ہے، سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد قائداعظم یونیورسٹی نے جینڈر سٹڈیز کے شعبے میں عائشہ مغل نامی خواجہ سرا کو لیکچرار بھرتی کیا، اسی طرح وزارت انسانی حقوق میں ایک خواجہ سرا کو میرٹ پر نوکری مل چکی ہے، اس کے برعکس پنجاب میں کچھ عرصہ پہلے ہائی سکول ٹیچر کی بھرتی کے موقع پر بھی ایک خواجہ سرا امیدوار کو یہ کہہ کر مسترد کر دیاگیا کہ طلبہ انہیں سنجیدہ نہیں لیں گے اس لیے ماحول خراب ہوگا۔

لاہورہائی کورٹ سے رجوع کرنے والے خواجہ سرا فیاض اللہ عرف فیضی سے جب اس بارے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم اے اردو کر چکی ہیں اور اب ایم فل کر رہی ہیں۔

انہوں نے پنجاب پبلک سروس کمیشن (پی پی ایس سی) کے تحت ہونے والی لیکچرارکی بھرتیوں کے لیے درخواست دی اور خواجہ سرا کا خانہ نہ ہونے کی وجہ سے فارم میں خود کو خواتین کے خانے میں درج کیا۔

انہوں نے بتایا کہ والدین نے ان کا نام لڑکا ہونے کے شک میں فیاض اللہ رکھا، وہی دستاویزی نام رہا لیکن انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی اپنا نام فیضی رکھا اور اسی نام سے انہیں جانا پہچانا جاتا ہے لہذا اسی بنیاد پر انہوں نے خاتون امیدوار کے طور پر درخواست جمع کروائی کیونکہ ان کی تعلیم مطلوبہ شرط کے مطابق تھی جو کہ محض اس بنیاد پر مسترد کر دی گئی کہ وہ خواجہ سرا ہیں۔

مسترد ہونے پر انہوں نے عدالت سے رجوع کیا جس پر ہائی کورٹ نے پی پی ایس سی کو بھرتیوں کا عمل روکتے ہوے متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کر لی۔

خواجہ سراؤں کی بھرتیوں کے قانون پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟

یہ سوال پنجاب پبلک سروس کمیشن کے سیکرٹری نواز خالد عاربی سے پوچھا گیاتو انہوں نے کہا کہ کمیشن کسی بھی پوسٹ کے لیے امتحان لیتا ہے تاکہ میرٹ پربھرتیوں کا عمل یقینی بنایا جائے، دوسرا یہ کہ پی پی ایس سی یہ بھرتیاں اپنے طور پر نہیں کرتا بلکہ صوبائی محکموں کی سفارشات، جتنی نشستیں ہوں اور دیگر شرائط کے مطابق اشتہار جاری کیا جاتا ہے۔

’ان شرائط کے تحت ہم امیدواروں سے درخواستیں وصول کرتے ہیں، پھر تحریری امتحان اور انٹرویو کے ذریعے اہل امیدواروں کو نشستوں کی تعداد کے لحاظ سے فائنل کرتے ہیں لیکن صوبائی اداروں کی مرد یا خواتین نشستوں کی سفارش بھیجی جاتی ہے اس لیے درخواست فارم میں خواجہ سرا امیدواروں کا خانہ نہیں ہوتا اگر ادارے اس کی سفارش کریں تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نواز خالد کے مطابق اس بار بھی محکمہ ہائر ایجوکیشن نے صوبے میں لیکچررز کی نشستوں پر امیدوار بھرتی کی سفارش کی تھی جو صرف مرد اور خواتین کے لیے تھی تو خواجہ سرا امیدوار سے کیسے درخواست وصول کی جا سکتی ہے؟

انہوں نے بتایا کہ ابھی تک کسی ادارے نے خواجہ سرا کو بھرتی کرنے سے متعلق سفارش نہیں کی لہذا وہ اپنی طرف سے اجازت تو نہیں دے سکتے۔

فیاض اللہ کے مطابق ملتان سے علیشا ایم فل ایجوکیشن ہیں، راولپنڈی سے نایاب اور لاہور سے جنت علی نے ایم اے پاس کر رکھا ہے اور انہوں نے کئی بار سرکاری نوکری کے لیے درخواست دی مگر انہیں بھی نظر انداز کردیا گیا۔ ’میں نے بھی کئی بار سرکاری نوکری کی کوشش کی لیکن ٹیسٹ یا انٹرویو کے لیے بھی نہیں بلایا جاتا۔‘

انہوں نے کہا کہ لاہورہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مقصد پنجاب سمیت دیگر صوبائی محکموں میں خواجہ سراؤں کی بھرتیوں کے دروازے کھلوانا ہے کیونکہ قانون تو موجود ہے لیکن اس پر صنفی امتیاز کو بنیاد بنا کر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان