ڈاکٹر باپ بیٹی کی ہلاکت: ذہنی دباؤ، کرونا ڈپریشن یا کوئی اورمعاملہ؟

’نفسیات کےڈاکٹر حضرات 60 فیصد سے زائد وقت اپنے مریضوں کے ساتھ گزارنے کی وجہ سے اکثر ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کئی بار غیر محسوس انداز میں ان کی ذہنی صحت بھی خراب ہوجاتی ہے لیکن وہ پرواہ نہیں کرتے۔ ‘

(سوشل میڈیا)

پنجاب کے جنوبی شہر ملتان میں مبینہ طور پر ماہر نفسیات ڈاکٹر اظہر حسین نے اپنی ڈاکٹر بیٹی علیزہ اظہر کو گولی مار کر خود کشی کرلی۔

پولیس نے ڈاکٹر اظہر حسین کی بیوہ بشریٰ حسین کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔ پولیس اہلکاروں کے مطابق مختلف پہلووں سے تفتیش کی جارہی ہے۔

بشریٰ حسین کا موقف ہے کہ جمعے کے روز وہ اپنی شادی شدہ بیٹی علیزہ اظہر کو سسرال کے گھر سے اپنی رہائش گاہ نشتر ہسپتال کے سامنے جسٹس حمید کالونی لائیں کیونکہ ادھر موجود کلینک میں علیزہ پریکٹس کیا کرتی تھی۔

ایف آئی آر کے مطابق ان کی بیٹی علیزہ تین بچوں سمیت کمرے میں موجود تھیں اور ان کے شوہر ڈاکٹر اظہر حسین جو نشتر ہسپتال سے ماہر نفسیات کے طور پر کچھ عرصہ پہلے ریٹائرڈ ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ موجود تھے جب کہ بشریٰ حسین دوسرے کمرے میں تھیں۔

اچانک گولی چلنے کی آواز آئی تو ان کے شوہر کمرے میں آئے۔ بشریٰ حسین نے ان سے پوچھا یہ آواز کیسی آئی تھی تو انہوں نے بتایاکہ ان سے گولی چل گئی جو چھت کو لگی جب کہ بچوں کی چیخ وپکار سن کر وہ جب اس کمرے کی طرف بھاگیں تو انہوں نے دیکھا کہ ڈاکٹر علیزہ خون میں لت پت زمین پر پڑی تھیں۔ ڈاکٹر علیزہ امتحان کی تیاری کر رہی تھیں اور انہوں نے اگلے دن یعنی ہفتے کو امتحان دینے کے لیے کراچی جانا تھا۔

بشری کے مطابق انہوں نے فوراً اپنے دیور محمد علی کو آواز دی جو نچلے پورشن میں تھے، وہ اوپر آگئے اور ان کی گاڑی میں وہ دونوں علیزہ کو نشتر ہسپتال ایمرجنسی لے کر گئے۔

ڈاکٹروں نے چیک کیا اور بتایاکہ وہ فوت ہوچکی ہیں۔ بشریٰ دیگر رشتہ داروں کو بلانے گھر واپس آئیں اور پولیس ہیلپ لائن 15پر کال کی تو پولیس بھی پہنچ گئی۔ ان کے شوہر ڈاکٹر اظہر نے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ دروازہ توڑا گیا، دریں اثنا وہ بھی کن پٹی پر فائر سے خود کشی کرچکے تھے۔ ان کے قریب ہی پستول بھی پڑا ہوا تھا۔

پولیس نے بشریٰ کی مدعیت میں تھانہ چہلیک میں مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔  متعلقہ ایس ایچ او بشیر ہراج سے اس بارے میں جاننے کے لیے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے بتایاکہ مدعیہ کی درخواست پر مقدمہ تو درج کر لیا گیا ہے لیکن پولیس تفتیش اپنے طریقے سے کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں بتایا یہی گیاہے کہ ڈاکٹر اظہر حسین پانچ چھ ماہ سے اپنے کمرے تک محدود تھے، انہیں کرونا بھی ہوا جس کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھے اور اسی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔ ’ہم نے موقعے سے شواہد جمع کر لیے ہیں ان کی بیوہ کا بیان بھی ریکارڈ کیا ہے اس کے علاوہ مقتولہ علیزہ کے خاوند ڈاکٹر عدنان کا بیان بھی لیا گیا ہے، اسی طرح دوسرے رشتہ داروں سے بھی بیانات لے رہے ہیں، جلد ہی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ اصل واقعہ وہی ہے جو بتایا گیا یا کوئی اور معاملہ ہے۔‘

واقعے کے بارے میں ملتان کے سینئر صحافی رضی الدین رضی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکٹر اظہر حسین کافی صاحب حیثیت انسان تھے۔ ان کی بہت جائیداد ہے، مہنگی گاڑی میں گھومتے تھے اور نشتر میں سروس کے دوران ان سے جان پہچان بھی رہی، وہ اپنی بیٹی سے بھی بہت پیار کرتے تھے۔ لیکن کچھ اطلاعات ہیں کہ ان کا ان کی بیوی سے کچھ دن پہلے جھگڑا ہوا تھا۔ پھر جائیداد کے معاملے کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔ لہذا معاملہ کی چھان بین کے بعد ہی حتمی نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے۔ کیونکہ ایسے کیسوں میں کئی بار وہ حقائق نہیں ہوتے جو بظاہر نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کی تفتیش کے بعد ہی پولیس رپورٹ سے پتہ چلے گا کہ آیا ڈاکٹر صاحب نے اپنی بیٹی کو قتل کر کے خود کشی کی یااس واقعہ میں کوئی اور ملوث ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہر نفسیات پنجاب یونیورسٹی شعبہ نفسیات کی ڈائریکٹر پروفیسرڈاکٹر رافعہ رفیق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئےکہا کہ یہ بات درست ہے کہ ذہنی دباؤ میں انسان کئی بار اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکتا اور اس طرح کے کام کر گزرتا ہے جو عام لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔

انہوں نے کہاکہ ایک ماہر نفسیات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ذہنی دباؤ کو محسوس کرنے پر خود بھی تھراپی کرائے اور کسی ماہر سے مشورہ ضرور کرے۔ جہاں تک اس معاملہ کا تعلق ہے تو یہ صرف ذہنی دباؤ کا نتیجہ نہیں ہوسکتا، کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوسکتاہے جو گھریلو معاملات سے وابستہ ہوگا۔ ایسا واقعہ ہر وقت ان کے ساتھ رہنے والے لوگوں کے ساتھ تو ہوسکتاہے لیکن جو بیٹی شادی شدہ ہے، اور وہ ان کے لیے کوئی مسئلہ بھی نہیں، تو اسے قتل کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے مریض جو ذہنی دباؤ میں شدت سےردعمل دیتے ہوں وہ بھی اپنے آپ کو نقصان پہنچا سکتے مگر دوسروں کے لیے خطرہ ثابت نہیں ہوتے۔

رافعہ کے مطابق نفسیات کےڈاکٹر حضرات 60فیصد سے زائد وقت اپنے مریضوں کے ساتھ گزارنے کی وجہ سے اکثر ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کئی بار غیر محسوس انداز میں ان کی ذہنی صحت بھی خراب ہوجاتی ہے لیکن وہ پرواہ نہیں کرتے۔ جب کہ انہیں بھی علاج کی اتنی ضرورت ہوتی ہے جتنی دوسرے مریضوں کو ہوتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان