راولپنڈی کے محمد ہارون خان 1992 سے کیرم بورڈ بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ صرف کھیلوں مثلاً کیرم بورڈ، بلیئرڈ اور لڈو بنانا کا کام کرتے تھے لیکن اب لوگوں کا ان چیزوں میں رجحان بہت کم ہو گیا ہے لہٰذا گزر بسر کے لیے فرنیچر کا بھی کام کرنا پڑتا ہے۔
’پہلے ایک مہینے میں تقریباً 1000 سے 1500 تک پیس بناتے تھے جو ہاتھوں ہاتھ بک جاتے تھے لیکن اب لوگ لیپ ٹاپ اور موبائلز پر گیمز کھیلتے ہیں، جس کی وجہ سے بمشکل سو سے ڈیڑھ سو پیس بنتے اور فروخت ہوتے ہیں۔‘
رتہ امرال کے رہائشی ہارون خان نے کیرم بورڈ بنانے کا طریقہ کار بتایا کہ سب سے پہلے وہ کیرم بورڈ کی لکڑی خرید کر اسے تیار کرتے ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اچھا میٹریل استعمال کریں تاکہ یہ زیادہ پائیدار بن سکے۔ ’ہم ایک کیرم بورڈ نہیں بناتے بلکہ پورا سیٹ بناتے ہیں جس میں پانچ پیس ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ فرنیچر کے کام میں زیادہ پیسہ ہے لہٰذا کاریگر اس کام کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ ’پہلے کافی لوگ کیرم بورڈ بنانے کا کام کرتے تھے لیکن اب اکّا دکّا لوگ اور کارخانے رہ گئے ہیں جہاں کیرم بورڈ بنائے جاتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ان کے بنائے ہوئے کیرم بورڈ سیالکوٹ اور پشاور تک جاتے ہیں۔ نامساعد حالات کے باوجود ہارون نے اس کام کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ’ہمارے آباؤ اجداد بھی یہ کام کرتے تھے، اس لیے ہم یہ کام چھوڑ نہیں سکتے۔ اس کو ساتھ ساتھ چلا رہے ہیں، کم ڈیمانڈ اور کم مزدوری میں بھی یہ کام جاری رہنا چاہیے۔‘
ہارون کا کہنا تھا کہ ان کے دوست احباب کہتے ہیں کہ یہ کام چھوڑ دیں، اس میں بچت نہیں۔ ہمیں بھی پتہ ہے لیکن ہمارا دل نہیں کرتا اسے چھوڑنے کو۔ ’ہم چاہتے ہیں کہ اس کام کو وہ بین الاقوامی سطح تک لے کر جائیں لیکن معاشی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے اگر حکومت یا پرائیویٹ ادارے ہماری مالی مدد کریں تو ہم اس کام کو بہت آگے لے جا سکتے ہیں اور پاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں۔‘