لاہور آلودہ: ’ولایتی درختوں کی جڑیں سیوریج پائپ توڑ کے نکل جاتی ہیں‘

یو ایس ائیر کوالٹی انڈیکس کے مطابق 25 جنوری کو پاکستان کا شہر کراچی  ہوا میں آلودہ ذرات کی مقدار152 اے کیو آئی کے ساتھ 14ویں جبکہ لاہور شہرآلودہ ذرات کی مقدار 130 کے ساتھ 22 ویں نمبر پر رہا۔

(اے ایف پی)

یو ایس ائیر کوالٹی انڈیکس کے مطابق 25 جنوری کو شام چھ بچے پاکستان کا شہر کراچی  ہوا میں آلودہ ذرات کی مقدار152 اے کیو آئی (ہوا میں ٹھوس اور مائع ذرات ناپنے کا پیمانہ) کے ساتھ 14ویں جبکہ لاہور شہرآلودہ ذرات کی مقدار 130 کے ساتھ 22 ویں نمبر پر رہا۔

دنیا کا آلودہ ترین شہر چین کا شین یانگ رہا جہاں ہوا میں آلودہ ذرات کی مقدار 304 پرٹیکیولیٹ میٹرز ریکارڈ کی گئی۔ یاد رہے کہ روزانہ چند گھنٹے کے وقفے سے ہوا میں آلودگی کے یہ اعداد و شمار تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

ائیر کوالٹی انڈیکس کی جانب سے جاری کی گئی آخری رپورٹ 2019کی ہے جس میں آلودہ ترین ممالک میں پاکستان کا نمبر دوسرا جبکہ بنگلہ دیش پہلے نمبر پر تھا۔

اگر شہروں کی بات کریں تو اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شہر گجرانوالہ 2019 میں دنیا کا تیسرا، فیصل آباد چوتھا، لاہور 12واں، اور پشاور 37 واں آلودہ ترین شہر تھا۔

آج کل بھی لاہور شہر اسی درجے کی طرف گامزن نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر اعجاز انور نہ صرف اپنے پینٹ برش سے پورا لاہور تصویروں کی صورت میں محفوظ کر چکے ہیں بلکہ وہ اس شہر کی تاریخ سے بھی واقف ہیں اور کنزرویشن کا کام بھی کرتے ہیں۔

شہر میں بڑھتی آلودگی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اعجاز انور کا کہنا تھا 'اس آلودگی کا تعلق کلائمیٹ چینج سے کم اور ہماری اپنی غلطیوں سے زیادہ ہے۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہم جو کوڑا اکٹھا کرتے ہیں اسے آگ لگانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ وہ چاہے بلدیاتی حکومت کے ادارے ہوں یا انفرادی طور پر عوام،  ہم کوڑا جلا دیتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ خطرناک پلاسٹک بیگز ہیں جو اگر جلتے ہیں تو ہوا کو زہریلا کر دیتے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'پہلے زمانے میں دیسی نسل کے درخت ہوا کرتے تھے جیسے بوہڑ والا چوک میں لگے بوہڑ کے پانچ درخت جو کئی برسوں سے وہاں موجود تھے۔ انہیں بھی کاٹ دیا گیا۔ اس چوک کا نام ہی بوہڑ والا چوک ان درختوں پرپڑا تھا۔ ہم نے کچھ عرصہ پہلے وہاں پھر ایک بوہڑ کا درخت لگایا مگر کچھ عرصے بعد وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ جہاں ہم نے درخت لگایا تھا اس کے سامنے کی دکان والے نے اسے اکھاڑ پھینکا۔'

 ڈاکٹر اعجاز انور کہتے ہیں کہ 'درخت دراصل شہر کے لیے پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں۔ درخت مٹی اور آلودگی کو اپنے اوپر لے لیتے ہیں۔ مٹی ان پر بیٹھ جاتی ہے یہاں تک کہ ان کا رنگ بھی خراب ہو جاتا ہے۔ لیکن جب بارش ہوتی ہے تو وہ مٹی ان پر سے بہہ کر زمین میں چلی جاتی ہے۔ مگر جیسے جیسے پلازے اور دکانیں بن رہی ہیں ویسے ویسے درخت کٹتے جارہے ہیں۔'

ان کے خیال میں پاکستان میں اب ولایتی درخت زیادہ لگائے جارہے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ 'پائن اور کورنو کارپس کے درخت لاکھوں میں لگا دیے۔ یہ وہ درخت ہیں جن کی جڑیں سیوریج کی نالیاں توڑ کر باہر نکل جاتی ہیں۔ ان کا نہ سایہ ہے نہ پرندے ان پر گھونسلہ بنا پاتے ہیں۔ ہمارے درخت تو ٹاہلی، پیپل، شیشم، شہتوت، بوہڑ وغیرہ ہیں، انہیں زیادہ سے زیادہ لگایا جائے۔'

ڈاکٹر اعجاز انور کہتے ہیں کہ 'لاہور پرانی عمارتوں کا شہر ہے اور یہ ہوا کی آلودگی انہیں بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ زیر زمین سیوریج کی وجہ سے گندا پانی ان پرانی عمارتوں کی بنیادوں میں جا کر انہیں کمزور کر رہا ہے۔ مغل دور میں ڈیمپ پروف سیمنٹ کا رواج نہیں تھا اس لیے جب پانی چڑھنا شروع ہوتا ہے دیواروں پر تو چڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح آلودہ ہوا ان عمارتوں کے رنگ کو خراب کرتی ہے اور ایک طرح کی کالک ان عمارتوں پر جم جاتی ہے جو بارش کے بعد بھی نہیں اترتی۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب اس بڑھتی آلودگی کے حوالے سے پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'کچھ خبریں چلیں کہ آج کے دن لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر تھا تو اس میں کوئی صداقت نہیں ہاں ماضی میں ضرور رہا ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لاہور آلودہ ہے اور ہم یہاں کی ائیر کوالٹی کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ہمارا فوکس فی الحال شہر سے کوڑا ختم کرنے کا ہے۔ کوڑا اس لیے اکٹھا ہوا کہ 31 دسمبر 2020 کو ہمارا ترکی کمپنی سے معاہدہ ختم ہو رہا تھا تو انہوں نے دسمبر کے پہلے ہفتے میں ہی کام چھوڑ دیا۔ لاہور میں ایک دن میں پانچ ہزار ٹن کچرا اکٹھا ہوتا ہے جسے تلف کرنا تھا مگر وہ تین روز تک نہ ہوسکا جس کی وجہ سے 15 ہزار ٹن کچرا شہر کی سڑکوں پر تھا۔'

'ہم نے لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے لوگوں کو لے کرخود سے کچرا اٹھانا شروع کیا مگر کچرا اتنا زیادہ اکٹھا ہو چکا تھا کہ اب اسے اٹھاتے اٹھاتے ایک ہفتہ مزید لگے گا۔ اس کے علاوہ ہم نے تمام وزرا اور اراکین اسمبلی کوبھی اس کام میں شامل کیا ہے اور ایک واٹس ایپ گروپ بھی بنایا ہے۔ لاہور شہر کے باسیوں کو کہیں پر بھی کچرے کا کوئی مسئلہ ہو تو وہ فوراً 1139 پر کال کر کے شکایت درج کروائیں تاکہ ہماری ٹیم وہاں پہنچ کر کچرے کو ہٹا سکے۔'

مسرت چیمہ نے مزید کہا: 'اس بار ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کچرا اٹھانے کے سلسلے میں ہم مستقبل میں کسی بیرون ملک کمپنی کو ٹھیکہ نہیں دیں گے بلکہ لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن کو استعمال کریں گے اور مقامی سطح پر پرائیویٹ سیکٹر کو ساتھ شامل کریں گے جس سے ہمیں سالانہ چار ارب روپے کی بچت ہوگی۔ اس کے علاوہ لاہور اور اس کے گرد و نواح میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کروائیں گے۔ ابھی پی ایچ اے شجر کاری کروا رہا ہے لیکن ہم اس کے لیے الگ سے مہم بھی چلائیں گے۔'

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً سات لاکھ افراد آلودہ ہوا کے سبب پیدا ہونے والی بیماریوں سے مرتے ہیں جبکہ دنیا کے 91 فیصد لوگ ایسی جگہوں پر رہتے ہیں جہاں کا ائیر کوالٹی انڈیکس عالمی ادارہ صحت کے معیارسے بہت نیچے ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات