اسلام آباد: پولیس کے لیے باڈی کیمروں کا منصوبہ کہاں پہنچا؟

باڈی کیمروں کے استعمال کے اعلان سے امید بندھ گئی تھی کہ اس طرح پولیس خصوصاً چیک پوسٹوں پر تعینات اہلکاروں سے متعلق شکایات حل ہوں گی۔

اسامہ ستی کے قتل اور دیگر واقعات میں شہریوں کو پولیس کی ممکنہ زیادتیوں سے بچانے کے لیے گذشتہ سال اسلام آباد پولیس میں باڈی کیمروں (Body Cams) کا تصور متعارف کروایا گیا تھا  (فائل تصویر: اے ایف پی)

اسلام آباد کے رہائشی نوجوان اسامہ ستی کی ہلاکت میں پولیس اہلکاروں کی غلطی کا ہر سطح پر ادراک ہونے کے باوجود جرم ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے مجرمان کے بری ہونے یا کم سزا پانے کے امکانات رد نہیں کیے جا سکتے۔

20 سالہ اسامہ ستی دو جنوری کو انسداد دہشت گردی سکواڈ کے پانچ اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے تھے اور واقعے کی عدالتی کارروائی میں بھی مذکورہ پولیس اہلکاروں کی غیر ذمہ دارانہ رویوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔

یہ واحد واقعہ نہیں جس میں جرم ہوا اور تمام واقعاتی شواہد اس میں ملوث قانون کے محافظوں کی طرف اشارہ بھی کرتے رہے، لیکن عدالت میں جرم ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت نہ مل سکے۔

اسامہ ستی کے قتل اور دیگر واقعات میں شہریوں کو پولیس کی ممکنہ زیادتیوں سے بچانے کے لیے گذشتہ سال اسلام آباد پولیس میں باڈی کیمروں (Body Cams) کا تصور متعارف کروایا گیا تھا، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

باڈی کیمرے کیوں نہیں لگے؟

ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد وقار الدین نے 23 جنوری 2020 کو ٹوئٹر پر بتایا تھا کہ ’وفاقی دارالحکومت میں پانچ چیک پوسٹوں پر اہلکاروں کو باڈی کیمرے اور مخصوص ٹیبلٹس مہیا کر دیئے گئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ یہ کیمرے سیف سٹی پراجیکٹ کے ساتھ منسلک ہوں گے اور پولیس اہلکاروں اور شہریوں کے درمیان ہونے والی گفت و شنید کو ریکارڈ کریں گے جبکہ ٹیبلٹس کے ذریعے پولیس اہلکار شناختی کارڈ نمبر استعمال کرتے ہوئے کسی شہری سے متعلق موقعے پر ہی معلومات دیکھ سکیں گے۔

اگلے مرحلے میں گشت کرنے اور تھانوں میں خدمات انجام دینے والے پولیس اہلکاروں کو بھی یہ کیمرے فراہم کیے جانے تھے۔

اسلام آباد پولیس کے مطابق پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں کو جب معلوم ہوگا کہ باڈی کیمرہ موجود ہے اور ان کی گفتگو ریکارڈ ہو رہی ہے تو دونوں فریق دیانتداری سے کام لینے کے علاوہ ایک دوسرے پر اعتماد بھی کریں گے۔

باڈی کیمروں کے استعمال کے اعلان سے امید بندھ گئی تھی کہ اس طرح پولیس خصوصاً چیک پوسٹوں پر تعینات اہلکاروں سے متعلق شکایات حل ہوں گی۔

تاہم ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود باڈی کیمروں کا پراجیکٹ آگے نہیں بڑھ سکا بلکہ پولیس اہلکاروں کو مہیا کیے گئے دس کیمرے بھی خراب ہونے کے بعد ناقابل استعمال قرار دے دیے گئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے باڈی کیمروں کی موجودہ صورت حال جاننے کے لیے اسلام آباد سیف سٹی کے انچارج سپیشل سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس سید بلال سے رابطہ کیا، جنہوں نے بتایا کہ باڈی کمیروں کا پراجیکٹ ابھی منظوری کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ پراجیکٹ کا پروپوزل وفاقی حکومت کو بھیج دیا گیا ہے، تاہم اس کی منظوری ہونا باقی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ باڈی کیمرے خریدنے کے لیے ایک بڑی رقم کی ضرورت ہے، جس کی منظوری وفاقی وزارت خزانہ نے ہی دینی ہے اور فنڈز کے بغیر کیمروں کی خریداری ممکن نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پلان کے مطابق باڈی کیمرے ان پولیس اہلکاروں کو مہیا کیے جائیں گے جو عوام سے براہ راست رابطے میں آتے ہیں۔

گذشتہ سال جنوری میں مہیا کیے گئے دس کیمروں سے متعلق سوال پر ایس ایس پی سید بلال نے کہا کہ ان کے استعمال میں مسائل (آپریشنل پرابلمز) کا سامنا دیکھنے میں آیا ہے جس کے باعث وہ آلات بھی استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔

باڈی کیمرے کیا ہیں؟

قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں قانون کے عدم احترام کے واقعات تقریباً ہر زمانے اور معاشرے میں ہوتے رہے ہیں اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہا۔

پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں طاقت کے مبینہ استعمال کے واقعات ان کا نشانہ بننے والے شہریوں کے علاوہ پولیس فورسز کے لیے بھی بدنامی کا باعث بننے کے علاوہ ایک بڑے چیلنج کے طور سامنے آئے ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے جسمانی کیمرے کو ایک بہتر حل سمجھا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ کے قومی ادارہ برائے انصاف کی ویب سائٹ پر موجود ایک آرٹیکل کے مطابق: ’باڈی کیمرہ گشت یا دیگر فرائض انجام دینے والے (پولیس) اہلکار کے چشمے یا سینے پر لگایا جاتا ہے، جو ریئل ٹائم معلومات فراہم کرتا ہے اور انہیں کمیونٹی کے ساتھ منسلک بھی رکھتا ہے۔‘

آرٹیکل میں مزید کہا گیا: ’باڈی کیمرے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ قانون کے نفاذ کے سلسلے میں نگرانی کرنے والا آلہ بن جاتا ہے، جس سے پولیس اہلکار کی حفاظت اور کارکردگی میں بہتری آتی ہے اور جرم کم ہوتا ہے۔‘

باڈی کیمرے کو قانون نافذ کرنے والے اہلکار عوام کے ساتھ رابطوں کو ریکارڈ کرنے یا جرائم کے ویڈیو شواہد اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور امریکہ، آسٹریلیا، سنگاپور، برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں یہ استعمال ہوتے ہیں۔

ماہرین کے خیال میں صرف باڈی کیمروں کے استعمال سے پولیس اہلکاروں کی کارکردگی اور اخلاقیات میں فرق آنا ممکن نہیں ہو گا۔

امریکہ میں جسٹس پروگرام ڈائگنوسٹک سینٹر کے مائیکل وائٹ کی ریسرچ میں سامنے آیا کہ باڈی کیمروں کے استعمال سے شروع میں مثبت نتائج ملے، تاہم ان کے زیادہ استعمال کی وجہ گرفتاریوں، قانونی چارہ جوئیوں اور جرم قبول کرنے میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان