گوادر گراؤنڈ: ’میڈیا زیادہ شہرت دے کر اسے بند کروانا چاہتا ہے‘

گوادر کرکٹ سٹیڈیم کے سرگرم رکن اور سنگھم کرکٹ کلب کے کپتان صابر حیاتان نے بتایا کہ ’میڈیا کو یہ گراؤنڈ اپنی رنگینیوں کے ساتھ اب نظر آرہا ہے لیکن ہم یہاں تب سے کھیل رہے ہیں جب یہاں مٹی ہی مٹی تھی۔‘

ان دنوں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے کوہ باطل کے دامن میں واقع ’محمد اسحاق بلوچ کرکٹ سٹیڈیم‘ الیکٹرانک، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر تصاویر اور رپورٹس کی صورت میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ 

تاہم گوادر کے اس کرکٹ سٹیڈیم کے ایک سرگرم رکن اور سنگھم کرکٹ کلب کے کپتان صابر حیاتان انڈپینڈنٹ اردو کو بتاتے ہیں کہ ’میڈیا کو یہ گراؤنڈ اپنی رنگینیوں کے ساتھ اب نظر آرہا ہے لیکن ہم یہاں تب سے کھیل رہے ہیں جب یہاں مٹی ہی مٹی تھی۔‘

صابر کے مطابق گراؤنڈ پر کام 2018 سے شروع ہوا اور یہ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا منصوبہ ہے، جس کا بجٹ شروع میں 84 لاکھ روپے تھا، جو بعد میں بڑھ کر ایک کروڑ 15 لاکھ تک جا پہنچا۔

گراؤنڈ کا اصل کام بنانا نہیں بلکہ اسے برقرار رکھنا ہے، جس کے لیے عارف آسکانی کی خدمات قابل تعریف ہیں۔ عارف آسکانی گوادر کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر اور پی سی بی کے نمائندہ رہے ہیں، جو بقول صابر اپنی جیب سے گراؤنڈ کی نگرانی اور دیکھ بھال کے لیے ماہانہ 40 سے 45 ہزار کے اخراجات برداشت کرتے تھے۔

صابر مزید کہتے ہیں کہ ’اس وقت گراؤنڈ کے لیے پاکستانی فوج افرادی قوت فراہم کر رہی ہے لیکن اسے ابھی تک سرکاری سرپرستی حاصل نہیں۔ یہ گراؤنڈ انٹرنیشنل میچز کے لیے نہ سہی لیکن کم از کم اس قدر حکومتی توجہ کا حق دار ہے کہ یہاں ڈومیسٹک میچ ہوسکیں۔‘

انہوں نے حکومت اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گوادر کے مقامی نوجوانوں کو موقع دیں تاکہ وہ بھی قومی و بین الاقوامی سطح پر کھیل سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گراؤنڈ کی مختلف زاویوں سے عکس بندی کے دوران ایک نوجوان نے اپنے نرم گوادری لہجے میں آواز دے کر خدشہ ظاہر کیا کہ میڈیا اس گراؤنڈ کو زیادہ شہرت دے کر ان کے لیے بند کروانا چاہتا ہے۔ تربت یونیورسٹی، گوادر کیمپس کے طالب علم علی (فرضی نام) نے کیمرے پر بات کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گوادر میں کوئی بھی جگہ مشہور ہونے کے بعد مقامی لوگوں کی پہنچ سے دور ہو جاتی ہے، جیسا کہ خود گوادر شہر، جسے کبھی باڑ لگانے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی کچھ اور۔

علی کہتے ہیں کہ ’گوادر کرکٹ سٹیڈیم بہت اچھا بنا ہے لیکن ہمیں ہماری یونیورسٹی بھی چاہیے، جس کا سنگ بنیاد 2016 میں رکھا گیا ہے۔ گوادر کے لوگ کرکٹ سے زیادہ فٹ بال کے شوقین ہیں اور ہر طرح کے فن و ہنر کو جانتے ہیں۔ یہاں فنکار، سینڈ آرٹسٹ اور باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں، مگر ان کے لیے یونیورسٹی چاہیے جس کا ہم بار بار مطالبہ کر رہے ہیں۔‘

گوادر میں نواز شریف کی حکومت میں گوادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا مگر یہ یونیورسٹی تاحال مکمل نہیں ہو سکی۔ اس وقت گوادر میں تربت یونیورسٹی کا ایک کیمپس ہے جس کے محض چار ڈپارٹمنٹس ہیں۔ علی کہتے ہیں: ’ہمارا مطالبہ ہے کہ گوادر کو یونیورسٹی دی جائے جس کے لیے ہم کئی مرتبہ سوشل میڈیا پر مہم چلا چکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یونیورسٹی کا خواب فی الحال تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔‘

علی خود بھی اسی کرکٹ گراؤنڈ میں پریکٹس کرنے اور کھیلنے کے لیے آتے ہیں، لیکن گراؤنڈ کی شہرت کو دیکھ کر یونیورسٹی کے قیام کا ارمان ان کے دل میں ہی رہ جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان