’خواتین گھرداری میں لگ کر اپنی خوشیوں کو غیر اہم سمجھنے لگتی ہیں‘

لاہور سے تعلق رکھنے والی غزالہ نے نوکری کرتے ہوئے اپنے چار بچوں کو خود پالا، اب جب ان کے بچے اپنی اپنی زندگیوں میں آباد ہیں تو وہ بُنائی کے اپنے بچپن کے شوق پورا کر رہی ہیں۔

لاہور کی رہائشی غزالہ شاہد کے چار بچے ہیں۔ شوہر سے علیحدگی ہوئی تو اپنے بچوں کو پالنے کے لیے انہوں نے تعلیم و تدریس کا شعبہ اختیار کیا۔ بچوں کو اچھی تعلیم دلوائی، نوکری کے ساتھ بچوں کی پرورش اور پھر ان کی شادیاں کیں۔

اس سب کے دوران وہ اپنا شوق بھول گئیں۔ مگر اب جب ان کے سب بچے اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں تو ان بچوں نے اپنی والدہ کو اس بات کے لیے قائل کیا کہ وہ اب اپنی زندگی جئیں اور وہ کام کریں جس سے انہیں خوشی حاصل ہوتی ہے۔

غزالہ کو بچپن سے بُنائی (knitting) کا شوق تھا۔ انہوں نے یہ ہنر اپنی خالہ سے  سیکھا تھا۔ گذشتہ برس جب غزالہ امریکہ گئیں تو ان کی بیٹی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ کرونا وبا کے سبب انہیں امریکہ میں کچھ زیادہ عرصہ رکنا پڑا۔ وہاں انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے نواسے کے لیے کچھ بُنیں۔

وہ جلد ہی اپنی بیٹی کے ساتھ جا کر اوون کے گولے اور سلائیاں لے کر آئیں اور اپنے نواسے کے لیے اپنے ہاتھوں سے سویٹر، جرابیں اور دستانے بنانے شروع کر دیے۔

غزالہ نے بتایا کہ جب وہ اوون لینے گئیں تو انہیں اندازہ ہوا کہ بہت سے لوگ اوون خرید رہے ہیں۔ ان کے خیال میں کرونا وبا میں لوگوں نے بہت سے ایسے پرانے کاموں کو پھر سے شروع کیا خاص طور پر بُننے کے کام کو جسے لوگ بھول چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب وہ چھوٹی تھیں تب بازار سے خریداری کا رواج کم تھا۔ لوگوں کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے چیزیں بنائیں اور انہیں خود بھی پہنیں اور دوسروں کو تحفے میں بھی دیں۔

انہوں نے کہا: ’ہاتھ سے سویٹر یا کچھ اور بُننے میں پیار کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے کیونکہ اس وقت آپ کے ذہن میں وہ بھی ہوتا ہے جس کے لیے آپ کچھ بنا رہے ہوتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عزالہ کہتی ہیں کہ انہیں بہت خوشی ملتی ہے جب وہ اپنے بچوں اور آگے سے ان کے بچوں کے لیے اپنے ہاتھوں سے کچھ بن کر بھیجتی ہیں۔

غزالہ اپنے نواسوں کے لیے کپڑے کے کھلونے بھی بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں پودوں کا شوق بھی ہے اور ساتھ ہی انہیں چائے کے مگ اور چینکیں جمع کرنے کا بھی شوق ہے۔

غزالہ نے کہا کہ خواتین گھرداری میں لگ کر خود کو یا اپنی خوشیوں کو غیر اہم سمجھنے لگتی ہیں اور اپنے لیے وقت نہیں نکالتیں جو کہ غلط بات ہے۔ اس کے ساتھ اولاد بھی یہ بات نہیں سمجھ پاتی کہ ان کے والدین بھی ایک جیتے جاگتے انسان ہیں۔

غزالہ کہتی ہیں کہ ان کے بچوں نے یہ بات سمجھی اور ان سے کہا کہ وہ اپنے فرائض پورے کر چکی ہیں اس لیے اب وہ وہ کریں جو انہیں اپنے لیے اچھا لگتا ہے۔ غزالہ کو بنائی اچھی لگتی تھی سو انہوں نے اپنے اسی پرانے شوق کو پورا کرنا شروع کر دیا۔

اب ان کے بچے انہیں اس بات پر قائل کر رہے ہیں کہ وہ اپنے اس شوق کو چھوٹے سے کاروبار کی شکل دیں اور آن لائن بزنس شروع کریں۔ اس سے وہ مصروف بھی رہیں گی، ان کا شوق بھی پورا ہو جائے گا، آمدنی بھی ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ اس طرح لوگ ہاتھ سے بنے کپڑوں کی طرف واپس لوٹ آئیں گے۔

غزالہ کی بیٹی شیرون شاہد جلد فیس بک اور دیگر سماجی رابطوں کی سائٹس پر اپنی والدہ کے  اس بزنس کی تشہیر کا سوچ رہی ہیں۔ غزالہ چاہتی ہیں کہ ان کی عمر کی خواتین اس بارے میں ضرور سوچیں کہ آخر ان کے شوق کیا ہیں۔ وہ کیا ایسے کام ہیں جو انہیں خوشی دیتے ہیں؟ مگر وہ ہمیشہ اپنی اس خوشی کو دباتی آئیں ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی گھر