عورت بھی انسان ہے

امریکہ کی نئی انتظامیہ میں پہلی بار جموں و کشمیر سے دو مسلم خواتین کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے۔ عائشہ شاہ اور سمیرا فاضلی کشمیر کی نئی نسل سے تعلق رکھتی ہیں اور جو بائیڈین کی جانب سے ان کو نمائندگی دینے سے کشمیری عوام میں امید پیدا ہوئی ہے۔

یہ خوشی کا لمحہ ہے کہ مختلف ملکوں میں عورتیں اپنا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


فرانس کی معروف مصنفہ شعمون دی بیویر سے جب ایک طالب علم نے پوچھا کہ دنیا میں عورت کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے تو انہوں نے جواب دیا ’دنیا مرد کو انسان سمجھتی ہے اور عورت کو صرف عورت، جب عورت کو انسان سمجھا جائے گا تو دنیا میں انصاف کی امید کی جاسکتی ہے۔‘

یہ بات شمون نے تقریباً سو سال پہلے کہی تھی جب وہ ایک اور معروف دانشور اور مصنف جاں پال سارتر کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر رہی تھی۔ انہوں نے عورتوں کے تئیں معاشرتی سوچ میں تبدیلی پر اپنی تصنیفات کے ذریعے سے آواز اٹھائی جو مغربی معاشرے میں عورت کے مساوی حقوق کے حصول کی جنگ میں کافی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی رہی ہیں۔

آج اگر وہ ان عورتوں کے بارے میں سنتی جنہوں نے مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اپنے لیے ایک مقام پیدا کیا ہے تو ضرور یہ کہنے پر مجبور ہوتیں کہ ’معاشرے میں عورت کو بھی شاید انسان سمجھا جانے لگا ہے۔‘

امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس بظاہر اس ضمن میں ایک بڑی مثال ہے۔

شیمون کی بات دراصل مجھے اس وقت یاد آئی جب چند روز پہلے برطانیہ میں مسلم کونسل آف برٹن کے انتخابات کے دوران مسلم ووٹروں نے مرد امیدوار کی بجائے عورت کا انتخاب کیا اور وہ بھی اس عورت کا جو ابھی 29 برس کی ہے اور 60 کے مقابلے میں 107 ووٹوں سے کامیاب قرار پائیں۔

مسلم کونسل آف برٹن، برطانیہ میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والا سب سے بڑا اور اہم ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔

زارا محمد نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس ملک میں ایک بڑی آبادی کی نمائندگی کرنا میرے لیے ایک بڑا اعزاز ہے اور میں نوجوان نسل کو ساتھ لے کر ہم آہنگی اور جمہوریت کی بنیادیں مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گی۔‘ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ عورتیں لیڈرشپ کا کردار ادا کرنے سے کتراتی ہیں حالانکہ وہ قابلیت، صلاحیت اور اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتی ہیں۔ لیکن ہمیں اس سوچ کو بدل کر اداروں کی سربراہی کرنی ہوگی اور عورت مرد کے بیچ اس جنسی تعصب کو مٹانا ہوگا۔

زارا محمد کی تقرری پر تبصرہ کرتے ہوئے کنگز کالج میں زیر تعلیم مبشر حسین کہتے ہیں کہ ’ماضی میں مسلم کونسل آف برٹن کا کافی اہم کردار رہا ہے جو چند برسوں سے ماند پڑ گیا ہے۔ مسلمانوں خاص طور پر تارکین وطن کو بعض مرتبہ کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس ادارے کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ ان مشکلات کو اجاگر کرے۔ زارا محمد کو یہاں کے مسلم نوجوانوں طلبا اور خواتین کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔‘

امریکہ کی نئی انتظامیہ میں پہلی بار جموں و کشمیر سے دو مسلم خواتین کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے۔ عائشہ شاہ اور سمیرا فاضلی کشمیر کی نئی نسل سے تعلق رکھتی ہیں اور جو بائیڈین کی جانب سے ان کو نمائندگی دینے سے کشمیری عوام میں یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ نئی انتظامیہ نے مسئلہ کشمیر پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ اس سے بھارت کے سرکاری ایوانوں میں کچھ کھلبلی نظر آنے لگی ہے۔

بھارتی میڈیا نے ان کی تقرری پر کئی سوال اٹھائے بلکہ سمیرا کے بارے میں خبر رساں اداروں نے اس بات کی خوب تشہیر کی کہ ان کے خلاف کشمیر میں ایف آئی آر درج ہے۔ یہ ان پر اس وقت دائر کی گئی ہے جب وہ امریکہ میں اپنے رشتہ دار کی رہائی کے لیے مہم چلا رہی تھیں جنہیں 5 اگست 2019 کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بعد میں اس پر کملا ہیرس نے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کا بیان دیا تھا۔

کملا ہیرس نے کئی بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ کشمیر معاملے پر اپنی انتظامیہ کی توجہ مرکوز کرے گی حالانکہ بھارتی میڈیا نے اس پر خاموشی اختیار کی ہے مگر انہیں ہندوستانی جتا کر کافی جشن بھی منایا گیا۔

نیو یارک میں آباد ابرار احمد نے بتایا کہ ’یہ تو جمہوریت کی خوبصورتی ہے کہ جس نے ہلری کلنٹن کو صدر بننے نہیں دیا لیکن تارک وطن خاتون کملا ہیرس کو نائب صدر بنایا۔ گو کہ مرد عورت کی بیچ فرق ابھی پوری طرح مٹایا نہیں جاسکا ہے البتہ افریقی والد کی بیٹی کو اتنا بڑا اعزاز دینا ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ یہاں کے بیشتر تجارتی اور اقتصادی اداروں کی رہنمائی عورتیں کرتی ہیں جن کو اللہ نے پہلے ہی معیشت کو کنٹرول اور سنبھالا دینے کی صلاحیت دے رکھی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ بات بھی سچ ہے کہ امیر ملکوں میں آباد تارکین وطن عورتوں کو حاصل کامیابی کا ہم جشن تو مناتے ہیں لیکن ملک کے اندر اپنی باکمال اور باصلاحیت عورتوں پر ماتم بھی کرتے ہیں۔ وہ چاہے بےنظیر بھٹو تھیں، شیخ حسینہ واجد ہیں، بیگم خالدہ ضیا ہیں یا عاصمہ جہانگیر تھیں۔۔۔۔اس نفسیاتی سوچ اور منفرد مزاج کا ایک آدھ تجزیاتی مطالعہ ضرور بنتا ہے۔

زارا محمد ہو، کملا ہیرس ہوں یا سمیرا فاضلی، ان کی طرح دنیا کے اطراف میں دوسری ایسی ہزاروں خواتین آگے بڑھنے میں رواں دواں ہیں جو معاشرے کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ جنسی تفریق، نفرت اور نسلی امتیاز ختم کرنے کی جدوجہد میں سبقت لے رہی ہیں۔ بعض خواتین اپنی جدوجہد خاموشی سے چلاتی رہیں ہیں اور ان کی تشہیر بھی نہیں چاہتی ہیں۔

یہ خوشی کا لمحہ ہے کہ مختلف ملکوں میں عورتیں اپنا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ اطمینان بھی ہو رہا ہے کہ مسلمان عورتیں زندگی کے مختلف شعبوں میں نہ صرف دوسروں سے سبقت حاصل کر رہی ہیں بلکہ اس فرسودہ سوچ کی بنیادیں ختم کر رہی ہیں جو امیر اور مغربی ملکوں میں مسلم معاشرے کے بارے میں کئی صدیوں سے قائم کردیا گیا ہے کہ اسلام نے عورت کو گھر کی چار دیواری تک محدود کر دیا ہے۔

مغرب اور مشرق میں مسلم لڑکیوں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے کہ جس نے اخلاق کے دائرے میں رہ کر عورت کو علم حاصل کرنے، صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور معاشرے میں اعلی مقام حاصل کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے نہ صرف عورت کو وراثت اور جائیداد کا حقدار بنا دیا ہے بلکہ اپنی منشا سے رشتہ ازدواج میں بندھنے اور اپنے مستقبل کا تعین کرنے کی حق بھی دے دیا ہے۔

یہ بات اور ہے کہ ہمارے چند مذہبی علما ان باتوں کی تشریح نہیں کرتے بلکہ اسلام کی وہ تصویر پیش کرتے رہے ہیں کہ جو مغرب کو راس آتی رہی ہے اور جس کو بنیاد بنا کر مذہب مخالف تحریکیں شروع کی جاتی رہی ہیں۔

اس پر صرف غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ دانش گاہوں میں باقاعدہ شعبہ قائم کرنا وقت کا تقاضا بھی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ