بریگزٹ: سابق پناہ گزینوں کے لیے دہری مشکل

’میری والدہ صومالیہ میں خانہ جنگی کی وجہ سے ہالینڈ سے ہوتی ہوئی برطانیہ آئیں، وہ ہر لحاظ سے برطانوی معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں اور بریگزٹ کے ذکر پر پریشان ہوجاتی ہیں۔‘

لندن میں ایک شخص بریگزٹ کے خلاف مظاہرے میں شریک ہے، فائل تصویر: اے ایف پی

میری رائے میں ایک مسئلہ جسے بریگزٹ کے بعد ہونے والی بحث میں نظر انداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ مستقبل میں برطانیہ میں مقیم پورپی یونین کے شہری کس طرح متاثر ہوں گے؟

حکومت کے مطابق اگر آپ یورپ، یورپی اقتصادی علاقے یا سوئٹزرلینڈ کے شہری ہیں تو آپ اور آپ کا خاندان برطانیہ میں رہائش جاری رکھنے کے لیے درخواست دے سکتا ہے، تاہم اس بات کا امکان ہے کہ آپ کی درخواست مسترد کردی جائے جبکہ اہلیت کی شرائط میں تبدیلی کا خدشہ بھی موجود ہے۔(جیسا کہ بریگزٹ کے بعد پہلے ہی بہت کچھ بدل چکا ہے)

بریگزٹ کے بعد ایک سے دوسری جگہ منتقلی کسی کے لیے بھی تکلیف دہ تجربہ ہوگا۔ ایسے کام، دوست اور آس پڑوس چھوڑنے کے بارے میں سوچیں جن کے آپ اور آپ کے خاندان والے عادی ہوچکے ہوں۔ جب آپ کو سابق پناہ گزین کے طور پر دوبارہ ایک سے دوسری جگہ جانا پڑے تو کیسا لگے  گا؟

میری والدہ صومالیہ میں خانہ جنگی کی وجہ سے ہالینڈ سے ہوتی ہوئی برطانیہ آئیں۔ کسی ایک جگہ مستقل رہائش تک تارکین وطن کا ایک سے زیادہ ملکوں میں رہنا عام سی بات ہے۔ دوسری مثالوں کے ساتھ ساتھ پناہ کے متلاشی ایرانی شہریوں کا معاملہ بھی ہے جو گذشتہ برس چھوٹی کشتیوں میں رودبار برطانیہ عبور کرکے فرانس سے انگلینڈ آئے۔

یہ مثالیں ایسے پناہ گزینوں کی ہیں جنہوں نے بہتر زندگی کی تلاش میں سابق زندگی سے فرار حاصل کیا، کیونکہ برطانیہ میں انسانی حقوق اور دیگر مراعات بہت سے ترقی پذیر ممالک سے بہتر ہیں۔ ترک وطن کے برطانوی قانون کے مطابق اگر آپ برطانیہ میں پناہ گزین کے طور پر رہنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ یا تو آپ بے وطن ہوں یا پھر آپ کو اپنے ملک میں قانونی کارروائی کا خطرہ ہو اور حکام آپ کے تحفظ میں ناکام ہوں۔

جہاں تک میری والدہ کا تعلق ہے وہ جنگ کی ستائی ہوئی تھیں۔ انہوں نے میرے والد کی پیروی کی جنہوں نے ان کے ساتھ برطانیہ میں بہتر زندگی کا وعدہ کیا تھا۔

میرے ہالینڈ میں گزارے وقت کے بارے میں سوال پر وہ کہتی ہیں کہ انہیں زیادہ یاد نہیں ہے۔ اُس وقت ان پر صومالیہ کی جنگ کی یادوں کا غلبہ تھا اس لیے انہوں نے صرف بچوں کے کھانے پینے پر توجہ دی۔

اُس وقت سے وہ برطانیہ میں رہ کر کام کر رہی ہیں۔ اس بات کو دس برس سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے۔ وہ ہر لحاظ سے برطانوی معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں۔ (ذاتی طور پر مجھے معاشرے کا حصہ بننے کے لفظ کی تشریح اچھی نہیں لگتی)۔

اب میری والدہ بریگزٹ کے ذکر پر پریشان ہوجاتی ہیں۔ میرے پاس ہالینڈ کی شہریت ہے لیکن مجھے اتنا خوف نہیں جتنی میری والدہ کو ہے۔ انہوں نے مجھ سے کئی بار پوچھا ہے کہ انہیں پھر سے تو دوسری جگہ نہیں جانا پڑے گا۔ ان کی پریشانی ہالینڈ کی ناخوشگوار یادوں کی وجہ سے ہے کیونکہ جب وہ صومالیہ سے وہاں پہنچی تھیں تو ذہنی طور پر بے حد پریشان تھیں۔

اس وقت بہت ہی کم سیاستدان پریشان ہیں لیکن ہمیں سابق پناہ گزینوں کی ذہنی صحت کا زیادہ احتیاط کے ساتھ علاج کرنا ہوگا۔

ترکِ وطن کے بعد دوسرے مرحلے میں برطانیہ پہنچنے والے پناہ گزینوں کے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ فاطمہ براستہ سویڈن برطانیہ پہنچیں اور اب وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ میں نے ان سے بریگزٹ کے معاملے پر بات کی ہے اور وہ بظاہر پریشان دکھائی دیتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ’یہ صورت حال بڑی مشکل ہے کیونکہ زیادہ تر ملکوں اور سیاستدانوں کو لوگوں کی زندگی کی پرواہ نہیں ہے‘۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مریم کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ترکِ وطن کرنے والی صومالیہ کی دوسری خواتین کی طرح انہیں بھی ان کے خاوند نے برطانیہ جانے پر مجبور کیا ورنہ وہ صومالیہ سے آنے کے بعد ہالینڈ میں ہی رہتیں لیکن اب وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے بہت اچھا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے بچوں کی تعلیمی میدان میں کامیابی پر فخر کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں لندن میں نسلی امتیاز کا بھی کم سامنا کرنا پڑا۔

جب یورپی یونین کے حوالے سے بات کی جائے تو لازمی ہے کہ سابق پناہ گزینوں کا بھی ذکر ہو۔ ان پناہ گزینوں کی اپنے ملکوں کو واپسی اتنی آسان نہیں ہے۔ ایسے ممالک زیادہ تر جنگ کا شکار ہیں اور ان کا دوبارہ وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔

جہاں تک اُن ممالک کا تعلق ہے جن کی شہریت اس وقت پناہ گزینوں کے پاس ہے تو حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ آنے سے پہلے پناہ گزینوں نے محض چند ماہ یا سال وہاں قیام کیا۔ اب برطانیہ ہی پناہ گزینوں کا وطن ہے، لہذا اب برطانیہ چھوڑنے کی محض بات ہی بڑی تکلیف دہ ہے۔ سیاستدانوں کو اس مسئلے پر توجہ دینی ہوگی کہ اُن پناہ گزینوں کا کیا بنے گا جو بریگزٹ پر عملدرآمد کے بعد یورپی یونین کے شہری بن جائیں گے۔

*نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر