باجوڑ: ریڈیو شو میں خواتین کے فون کرنے پر پابندی کیوں لگائی گئی؟

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ کی تحصیل ماموند کے ایک نمائندہ جرگے کی جانب سے خواتین کو حکومت کی طرف سے ملنے والی رقم کے حصول کے لیے ’صدائے امن مرکز‘ جانے اور ریڈیو شو میں کال کرنے پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے پر کافی لے دے ہورہی ہے۔

خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں دو  خواتین ایک بازار سے گزر رہی ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ کی تحصیل ماموند کے ایک نمائندہ جرگہ نے خواتین کو حکومت کی طرف سے ملنے والی رقم کے لیے ’صدائے امن مرکز‘ جانے اور کسی بھی ریڈیو شو میں کال کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔

یہ فیصلہ جمعے (پانچ فروری) کو ہونے والے ایک جرگے میں کیا گیا ہے، جس میں تحصیل ماموند کے مشران نے شرکت کی تھی۔ جرگے کے فیصلے میں کہا گیا کہ علاقے کی کسی بھی خاتون کو ’صدائے امن مرکز‘ جانے اور وہاں سے نقد امداد وصول کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جبکہ اگر کسی بھی خاتون نے ریڈیو شو میں کال کی تو ان پر 10 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔

صدائے امن پروگرام کیا ہے؟

صدائے امن پروگرام حکومت پاکستان کی جانب سے قبائلی اضلاع کے رہائشیوں کے لیے شروع کیا گیا ایک امدادی پروگرام ہے، جس میں نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو مجموعی طور پر  16 زار روپے ماہانہ (چار اقساط کی صورت میں) دیے جاتے ہیں۔

اسی طرح ان خاندانوں کو، جن کے دو سال یا اس سے کم عمر کے بچے ہوں، مجموعی طور پر فی خاندان 7500 روپے (2500 روپے ماہانہ اقساط کی صورت میں) دیے جاتے ہیں۔

اس نقد امداد کو وصول کرنے کے لیے خواتین کو صدائے امن کے نام سے قائم مراکز میں جانا پڑتا ہے، جو قبائلی اضلاع کے مختلف علاقوں میں قائم کیے گئے ہیں۔ خواتین کے علاوہ یہ امداد کسی اور کو نہیں دی جاتی۔

پابندی کیوں لگائی گئی؟

ملک سعید الرحمٰن ماموند جرگے کے ممبر ہیں اور اس فیصلے کے دوران وہ موجود تھے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صدائے امن مراکز میں خواتین کے بیٹھنے تک کا بندوبست نہیں ہے اور انہیں سڑکوں پر خوار ہونا پڑتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس مسئلے کے حوالے سے مرکز کے منتظمین اور ضلعی انتظامیہ سے بھی بارہا درخواست کی گئی تھی کہ ان مراکز میں خواتین کے لیے مناسب بندوبست ہے اور نہ ہی پردے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

بقول سعید الرحمٰن: ’بار بار یاددہانی کے باجود مراکز میں انتظامات ٹھیک نہیں کیے گئے، اس لیے مجبوری کے تحت جرگے نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ 2500 روپے کی خاطر اپنی خواتین کو بے پردہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی انہیں سڑکوں پر بٹھا سکتے ہیں۔‘

اسی مرکز میں ’ناقص انتظامات‘ کے خلاف گذشتہ سال تین دسمبر کو جماعت اسلامی کی جانب سے بھی ایک مظاہرہ کیا گیا تھا، جس میں انتظامیہ سے صدائے امن مراکز میں انتظامات بہتر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملک سعید نے بتایا کہ تحصیل ماموند کی آبادی پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے اور اس امدادی رقم کی تقسیم کے لیے پانچ لاکھ آبادی کے لیے صرف ایک مرکز قائم ہے جہاں خواتین کو اپنی باری کے لیے ہفتوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

خواتین پر ریڈیو کالز پر پابندی کے حوالے سے سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’باجوڑ بھی ضم شدہ اضلاع میں شامل ہے اور یہاں پر ابھی تک تعلیم کی کمی ہے۔ ہماری خواتین ریڈیو پر کال کرکے ایسی باتیں کرتی ہیں جو علاقے کے رسم رواج کے منافی ہوتی ہیں۔‘

’اسی وجہ سے علاقے کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اگر خواتین کو کوئی مسئلہ ہے یا کوئی سوال ہے تو وہ اپنے گھر کے مردوں سے پوچھیں، بجائے اس کے وہ ریڈیو شوز میں کال کرکے ادھر ادھر کی باتیں کریں۔‘

باجوڑ جرگے کے اس فیصلے پر بیشتر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے جبکہ بعض اس کے حق میں ہیں۔

سینیئر صحافی حامد میر نے اس حوالے سے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ یہ جرگہ اور اس کا فیصلہ پاکستان کے آئین اور قانون کے علاوہ اسلامی روایات کے بھی منافی ہے۔

حامد میر نے لکھا: ’اس جرگے کو اسلام کی تاریخ پڑھانی چاہیے۔ خواتین جنگیں لڑ سکتی ہیں تو ٹیلی فون کال کیوں نہیں کر سکتیں؟ ان جرگے والوں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے اور قانون کی عمل داری قائم کی جائے۔‘

ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا کہ اگر یہ سب لوگ اپنی اقدار و روایات کو تحفظ دینے کے لیے باہمی رضامندی سے کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو اس میں کون سی برائی ہے یا یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے؟ انہوں نے کوئی خرابی دیکھی ہوگی تو مسئلہ بنا ہوگا ورنہ ’ضرورتِ وقت‘ بھی ایک فیصلہ ہی ہے۔

اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد ایاز نے لکھا: ’سارے قبائلی اضلاع میں یہاں خواتین کی تعلیمی شرح زیادہ ہے لیکن یہاں کے مقامی ایف ایم چینلز ایسے پروگرام نشر کر رہے ہیں جو یہاں کے رسم و رواج سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘

اس سارے معاملے پر نظر رکھنے والے باجوڑ کے مقامی صحافی بلال یاسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مقامی سطح پر ایک نجی چینل کے خلاف احتجاج بھی ہوا تھا اور سوشل میڈیا پر مہم بھی چلائی گئی تھا لیکن اس کا نوٹس نہیں لیا گیا تو اس لیے جرگے کو یہ فیصلہ کرنا پڑا۔

انہوں نے بتایا کہ مقامی مشران کا موقف ہے کہ ریڈیو پر چلنے والے پروگراموں میں فون کال کرنا ہماری روایات کے خلاف ہے، اس سے بے حیائی پھیلتی ہے اور مقامی سطح پر یہ علاقے کی بدنامی کا سبب بنتا ہے۔

دوسری جانب اس پابندی کے حوالے سے باجوڑ کے ڈپٹی کمشنر فیاض شیرپاؤ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’خواتین کو باہر نکلنے سے روکنا یا ریڈیو کو کال کرنے پر پابندی کسی بھی قانون اور رواج میں نہیں ہے۔ اگر قبائلی مشران کو تحفظات ہیں تو وہ انتظامیہ کو بتادیں کیونکہ خواتین پر ایسی پابندی لگانا غیر قانونی اور عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘

شیرپاؤ نے مزید بتایا: ’مقامی مشران کے ساتھ مذاکرات کرکے اس مسئلے کا حل نکالا جائے گا اور بات نہ ماننے کی صورت میں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین