سوشل اینتھروپولوجسٹ اور آرکیالوجسٹ میرین بخاری کے مطابق سندھ کی خواتین رنگ برنگی رلی پر جو ڈیزائن بناتی ہیں، وہ ڈیزائنز وادیٔ سندھ کی پانچ ہزار سال قدیم تہذیب موہن جو دڑو سے ملنے والی مہروں سے مشابہت رکھتے ہیں اور یہ مقامی خواتین کے ڈی این اے میں صدیوں سے شامل ہیں۔
رلیوں کے ڈیزائن کے متعلق انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں میرین بخاری نے کہا کہ مختلف رنگوں کے کپڑے کے ٹکڑوں سے بنی رلی عام رواج نظر آتا ہے، مگر اس میں سندھو تہذیب کی کہانی لکھی ہوتی ہے۔
بقول میرین: ’یہ تمام رنگ وادیٔ سندھ کی تہذیب کے رنگ ہیں، جن کو ایک خاص مہارت سے ڈیزائن کرکے اس تہذیب کی عکاسی کی جاتی ہے۔
’رلی کے باہر والے بارڈر پر نیلے رنگ کی پٹی بنا کر دریائے سندھ کی عکاسی کی جاتی ہے، اس کے بعد دیگر رنگوں سے دریائے سندھ سے نکلنے والی نہریں بنا کر ان میں مچھلیوں کے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد میدانی علاقوں اور زراعت کی عکاسی کے لیے سندھ میں اگنے والی گھاس ’لوسن‘ کا پتہ بنایا گیا ہے۔
’ایک دوسری رلی میں رنگ برنگے چوکور ڈیزائن اس وقت کے گھروں کی عکاسی کرتی ہے کہ گھر کس ڈیزائن میں بنائے جاتے تھے۔
’گھر کے مرکزی حصے کے ساتھ چاروں کونوں میں موجود مختلف ڈیزائن یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت گھر کے دونوں کونوں میں ہریالی یا باغ اور دو کونوں میں مرد و خواتین کے بیٹھنے کی جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔‘
میرین بخاری نے کہا کہ رلی میں لگے مختلف رنگ مختلف چیزوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ تاریخ بتانے کے ساتھ اس وقت وادیٔ سندھ کی تہذیب کے موسم کا بھی پتہ دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’رلی میں مختلف رنگوں کے چھوٹے تکونوں میں موسم کے متعلق معلومات دی جاتی ہیں، جیسے نارنجی رنگ کا تکون خزاں، ہرے رنگ کا تکون بہار، سفید رنگ موسمِ سرما کی نشاندہی کرتا ہے۔
’اس کے علاوہ کالا رنگ اس لیے لگایا جاتا ہے کہ وادیٔ سندھ کی تہذیب میں کالے رنگ کو بری نظر سے بچاؤ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔‘
میرین بخاری کے مطابق سندھ کی خواتین کو رلی میں مختلف رنگوں کو ڈیزائن کرنے کے متعلق کسی نے نہیں بتایا بلکہ یہ نسلوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوا اور اب یہ ہنر ان خواتین کے ’ڈی این اے‘ میں شامل ہے۔
بقول میرین بخاری: ’مگر اب ان خواتین میں نسل در نسل منتقل ہونے والے اس ہنر کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ کچھ شہری خواتین اور بیگمات ان دیہی خواتین کی مالی مدد کے نام پر انہیں روایتی رنگ و ڈیزائن کو چھوڑ کر اپنے ڈیزائن اور رنگ والی دستکاری اور رلی بنوانا شروع کر چکی ہیں۔
’یہ شہری خواتین اور بیگمات ان دیہی خواتین سے کم اجرت پر اپنی مرضی کے ڈیزائن اور رنگ کی اشیا بنوا کر انہیں تھوڑے سے پیسے دے کر خود انتہائی زیادہ قیمت پر فروخت کرتی ہیں۔
’ایسا کرنے سے خدشہ ہے کہ یہ دیہی خواتین صدیوں پرانے ہنر کو اپنی آنے والی نسل کو منتقل کرنے کے بجائے بھول جائیں گی اور ان کی نئی نسل صدیوں پرانے ڈیزائن کو چھوڑ کر شہری خواتین کے دیے گئے ڈیزائن اپنا لے گی۔‘
میرین بخاری نے یونیورسٹی آف لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز سے سوشل اینتھروپولوجی اور آرکیالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے سندھ، بلوچستان کے علاوہ سعودی عرب کی خواتین اور ان کی دستکاری پر طویل عرصے تک کام کیا ہے۔
انہوں نے اپنی تعلیم کے دوران لندن میں دو بڑی نمائشوں کا بھی اہتمام کیا، جن میں ایک Mapping the Treasure of Arabia اور دوسری Embroidered Tales and Woven Dreams تھیں۔
Embroidered Tales and Woven Dreams جنوری 2017 میں یونیورسٹی آف لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز کی برونائی گیلری میں تین مہینے تک لگی۔
اس نمائش میں میرین بخاری نے وسطی ایشیا، وادیٔ سندھ، افغانستان اور قریبی مشرقی ممالک کی خواتین کے ہاتھوں کی گئی روایتی کڑھائی اور روایتی کپڑے پیش کیے۔
نمائش کا مقصد ان خواتین کے ہنر اور ثقافتی ورثے کو اجاگر کرنا تھا، جنہوں نے نسل در نسل کڑھائی کے ذریعے اپنی پہچان، تاریخ کی کہانیاں اور رسم و رواج محفوظ کیے۔
Mapping the Treasure of Arabia نمائش بھی برونائی گیلری میں جنوری 2023 سے مارچ 2023 کے درمیان منعقد ہوئی، جس میں میرین بخاری کی جانب سے جمع کردہ عرب خطے کے قدیم تاریخی نقشے، تصاویر اور کندہ کاریوں کے ذریعے پندرھویں صدی سے انیسویں صدی تک کے عرب جزیروں اور شہروں کی جھلک پیش کی گئی۔
نمائش میں مکہ، مدینہ اور حج کے سفر سے متعلق تاریخی تصاویر اور مناظر شامل تھے۔
مزید یہ کہ صحرا کی زندگی اور مختلف قبائلی علاقوں کو بھی تصاویر کے ذریعے دکھایا گیا۔
یہ نمائش سعودی عرب کی کمپنی آرامکو کے تعاون سے منعقد کی گئی تھی۔