جنوبی وزیرستان: ’جب دو صحافی دوست میرے سامنے قتل ہوئے‘

قبائلی اضلاع میں صحافیوں پر پہلا وار حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے دن یعنیٰ سات فروری، 2005 کو ہوا۔ اس معاہدے نے نہ صرف صحافیوں کو تتر بتر کردیا بلکہ دنیا بھی درست خبروں سے محروم ہو گئی: دلاور خان وزیر۔

پانچ دسمبر، 2005 کو  قتل ہونے والے صحافی حیات اللہ کے بچے اپنے والد کی تصویر کے ساتھ (اے ایف پی)

امریکہ میں نائن الیون کے بعد قبائلی اضلاع میں صحافیوں پر پہلا وار حکومت اور شدت پسند طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے دن یعنیٰ سات فروری، 2005 کو ہوا تھا، اس معاہدے نے نہ صرف صحافیوں کو تتر بتر کردیا بلکہ دنیا بھی درست خبروں سے محروم ہو گئی۔

تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کے ساتھ امن معاہدہ ایک ایسے موقعے پر ہو رہا تھا جب پورا وزیرستان جنگ کی لپیٹ میں تھا۔ جیٹ طیاروں کی بمباری، گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ اور توپوں کی گھن گرج نے لوگوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔

دوسری طرف شدت پسند بھی بھاری اسلے سے سکیورٹی فورسز کے ٹھکانوں اور فوجی قافلوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔

جنوبی وزیرستان میں داخل ہونے والے قافلوں پر مسلسل حملوں سے سکیورٹی فورسز کو کافی جانی و مالی نقصان پہنچنے کے بعد حکومت اور طالبان امن معاہدہ کرنے پر رضامند ہوگئے اور جنوبی وزیرستان کی تحصیل سراروغہ میں امن معاہدے کی تقریب میں بین الاقوامی، ملکی اور مقامی میڈیا کے نمائندے شریک ہوئے تھے۔

سراروغہ سے واپسی پر رات آٹھ بجے کے قریب وانا بازار سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ڈگری کالج وانا اور ضلعی ہسپتال کے درمیان گزرنے والی سڑک پر پیچھے سے آنے والی ایک نان کسٹم پیڈ گاڑی سے صحافیوں کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں دو صحافی امیرنواب اور اللہ نور ہلاک جبکہ انور شاکر زخمی ہوئے تھے۔

میں گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا اس لیے میں نے صاف دیکھا کہ حملہ کرنے والی گاڑی بغیر کسی خوف کے آگے نکل گئی۔ صحافیوں پر حملے کے بعد بین الاقوامی اور ملکی میڈیا کے لیے کام کرنے والے غیر مقامی صحافیوں نے جنوبی وزیرستان آنا چھوڑ دیا اور تمام میڈیا پر سکیورٹی فورسز اور طالبان کے ترجمانوں کے ذریعے سے خبریں چلنا شروع ہوئیں اور ہلاکتوں کے دعوؤں میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کے حساب سے فرق معلوم ہوتا تھا، مگر میڈیا خبروں کو اندھا دھند چلا رہا تھا۔

صحافی کے قتل کا دوسرا واقعہ پانچ دسمبر، 2005 کو ہوا، جس میں شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی حیات اللہ کو نامعلوم افراد نے اغوا کے بعد قتل کردیا تھا۔ ٹرائبل یونین آف جرنلسٹ کے صدر صفدر داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنوبی وزیرستان سے لے کر باجوڑ تک دہشت گردی کی اس جنگ میں 15 صحافی قتل ہوئے اور دو درجن سے زیادہ صحافی اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں آباد ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صرف ایک صحافی مُکرم عاطف کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی باقی 14 صحافیوں کی کسی نے ذمہ داری قبول کی اور نہ ان کے خاندان والوں نے کسی پر الزام لگایا۔

انہوں نے کہا کہ ٹرائبل یونین آف جرنلسٹ نے حکومت سے بار بار مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کی جنگ میں قتل ہونے والے صحافیوں کی تحقیقات کی جائے مگر ابھی تک ایک واقعے کی بھی تحقیقات نہیں ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ حیات اللہ کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ نے تحقیقات کا حکم دیا تھا مگر وہ صرف حکم تک رہ گیا اور تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وانا واقعے میں زخمی ہونے والے صحافی انور شاکر کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں قتل ہونے والے صحافیوں کے خاندان والوں کو ہم نے بھلا دیا ہے۔ صحافیوں کے مزار پر نہ کوئی چراغ ہے اور نہ کوئی پھول، بس صحافی برادری کی سرد مہری کا شکوہ ضرور ہے۔

انور نے جب سے وانا چھوڑا ہے تب سے وہاں واپس نہیں گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بھی حالات اچھے نہیں اور وہ اپنے علاقے نہیں جا سکتے، جب حالات میں بہتری آئے گی اس کے بعد وہ وانا جائیں گے۔

یہ بات اپنی جگہ کہ ہم نے اس دنیا سے جانے والے ساتھیوں کو بھلا دیا مگر سات فروری، 2005 کی وہ شام جس میں میرے سامنے میرے دو ساتھی امیر نواب اور اللہ نور خون میں لت پت تڑپتے نظر آ رہے تھے اور میں کچھ نہیں کرسکتا تھا، میں بھلا نہیں سکا، میں خود کو ایک زندہ لاش سمجھ رہا تھا۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان