بلوچستان کے ٹکٹ پر تحریک انصاف اختلافات کا شکار کیوں؟

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جہاں مختلف مسائل کا شکار ہے وہیں اپوزیشن کے دباؤ اور معاشی مشکلات کے ساتھ سینیٹ انتخابات میں ٹکٹ کی تقسیم نے بھی کارکنوں اور قیادت میں تناؤ پیدا کر دیا ہے۔ 

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے رہنماؤں کے احتجاج کے باعث عبدالقادر کے نام کو واپس لینے کا اعلان کیا گیا (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جہاں مختلف مسائل کا شکار ہے وہیں اپوزیشن کے دباؤ اور معاشی مشکلات کے ساتھ سینیٹ انتخابات میں ٹکٹ کی تقسیم نے بھی کارکنوں اور قیادت میں تناؤ پیدا کر دیا ہے۔ 

سینیٹ انتخابات کے حوالے سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے بیشتر نے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے بلوچستان کے لیے عبدالقادر نامی شخص کو ٹکٹ دینے کے اعلان نے اختلافات کو شدید کر دیا ہے۔ 

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے سینیئر رہنما ہمایوں خان بارکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مرکزی قیادت کے غیر متعلقہ شخص کو ٹکٹ دینے کے فیصلے  سے کارکن ناراض ہیں۔ 

ہمایوں بارکزئی کے بقول جس شخص کو سینیٹ کا ٹکٹ جاری کیا گیا ہے وہ بلوچستان کے مقامی باشندہ ہی نہیں، ان کو ہم کس طرح تسلیم کرسکتے ہیں۔  

انہوں نے بتایا کہ جو شخص ایک دن پہلے پارٹی میں شمولیت اختیار کرے، اس کو ٹکٹ جاری کرنا پرانے کارکنوں کی حق تلفی کے مترادف ہے۔ 

جہاں ایک طرف پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اسلام آباد میں بطور احتجاج جمع تھے وہیں کوئٹہ میں ریجنل صدور نے بھی صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے فیصلے کی مخالفت کی۔ 

کوئٹہ پریس کلب میں پاکستان تحریک انصاف کے ریجنل صدور نواب خان دمڑ، تاج محمد رند، ڈاکٹر منیر بلوچ اور دیگر نے کہا کہ پارٹی کے آئین کے مطابق صرف پارٹی کا کارکن ہی سینیٹ کا امیدوار بن سکتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ’سینیٹ کے لیے نامزد امیدوار عبدالقادر ایک پیرا شوٹر ہے۔ جن کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ جس شخص کو بلوچستان سے ٹکٹ جاری کیا گیا ہے وہ نیب زدہ اور مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف کا شراکت دار ہے۔ 

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تاج محمد رند نے کہا کہ سینیٹ کے ٹکٹ کے لیے 11 رکنی پارلیمانی کمیٹی میں بلوچستان سے کسی کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ 

رہنماؤں نے کہا کہ اس طرح کے فیصلوں سے پارٹی کی بنیادیں ختم ہوجائیں گی۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے جس خدشے سے متعلق ٹویٹ کی کہ بلوچستان میں 50 سے 70 کروڑ خرچ کیے جارہے ہیں اور ہم ان کا راستہ روکیں اس کے برعکس فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

ادھر پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے سابق سیکرٹری اطلاعات بابر یوسف زئی نے بھی ایک ویڈیو میں کہا کہ سینیٹ کا ٹکٹ جاری کرنے والے عبدالقادر کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ عبدالقادر کبھی بھی پاکستان تحریک انصاف کے ممبر نہیں رہے ہیں۔ انہیں بلوچستان کا کوئی عہدیدار اور کارکن بھی نہیں جانتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے قائد اور وزیراعظم عمران خان کی جانب سے رہنماؤں کے احتجاج کے باعث عبدالقادر کے نام کو واپس لینے کا اعلان کیا گیا۔ 

پی ٹی آئی کے ترجمان اور وزیراعظم کے سیاسی رابطوں کے مشیر شہباز گل نے ٹویٹ کرتے ہوئے عبدالقادر کا نام واپس لینے کی اطلاع دی۔ 

شہباز گل نے ٹویٹ میں کہا کہ ’بلوچستان سے سیںیٹ کا ٹکٹ عبدالقادر کو دینے کا فیصلہ واپس لے کر ٹکٹ سید ظہور آغا کو جاری کیا جا رہا ہے۔ کپتان (عمران خان) ہمیشہ اپنے پارٹی ورکرز کی آواز سنتا ہے۔‘ 

ان کی اس ٹویٹ کے جواب میں صارفین نے مختلف تبصرے کیے اور تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ 

ایک صارف مہر نیر نے کہا کہ باقی پارٹیوں کی طرح پی ٹی آئی میں بھی خوشامدیوں کو نوازا جا رہا ہے۔ 

ایک دوسرے صارف نے شہباز گل کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’مہربانی کرکے سندھ میں سیف اللہ ابڑو کو دیے ٹکٹ پر بھی غور کریں۔ ان سے بہتر اور حق دار لوگوں کو نظر انداز کیا گیا۔‘ 

واضح رہے کہ سینیٹ کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تین مارچ کی تاریخ مقررکی ہے جس کے لیے کاغذات نامزدگی حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ 

یاد رہے کہ عبدالقادر کے نام کے اعلان پر سینیٹر سرفراز بگٹی نے ٹویٹ کرتے ہوئے اسے پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی کا مشترکہ امیدوار قرار دیا تھا۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست