ڈونلڈ ٹرمپ شامی صدر بشارالاسد کو قتل کروانا چاہتے تھے: سابق مشیر

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک سابق مشیر نے انکشاف کیا ہے 2017 میں شامی شہریوں پر سرین گیس کے حملے کی تصاویر دکھنے کے بعد ٹرمپ شامی صدر بشارالاسد کو ’ختم‘ کر دینا چاہتے تھے۔

کتوبر 2019 میں ٹرمپ نے شام سے فوج کو واپس بلانے کا اعلان کرنے کے کچھ عرصے بعد ہی یہ فیصلہ واپس لے لیا (اے ایف پی)

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک سابق مشیر کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار شامی آمر حکمران بشارالاسد کے قتل کا حکم جاری کرنے سے روکنے کے لیے سمجھایا گیا۔

قومی سلامتی کی سابق نائب مشیر کے ٹی میک فارلینڈ کا کہنا ہے کہ سال 2017 میں ان کے عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی ہفتوں کے اندر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام میں عام شہریوں پر سرین گیس حملے کی تصاویر کو دیکھ کر بضد تھے وہ انہیں (بشار الاسد) کو ’ختم کر دیں گے۔‘

سابق مشیر نے یہ انکشاف ’بی بی سی‘ کی ڈاکومینٹری سیریز ’ٹرمپ ٹیکس آن دا ورلڈ‘ کو دیے جانے والے انٹرویو کے دوران کیا۔ 

سابق دفاعی عہدیدار میک فارلینڈ کا کہنا تھا کہ ’میں نے کہا جناب صدر آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ اور میں نے کہا یہ ایک جنگی عمل ہو گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ٹرمپ نے مجھے غصے سے دیکھا اور انہوں نے سنجیدہ ڈونلڈ ٹرمپ کے انداز میں اپنے بازووں کو سینے پر رکھ لیا۔ میں جانتی ہوں کہ وہ اسد کو سزا دینے کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے اور وہ انہیں چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔‘

’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق میک فارلینڈ کو اپنے عہدے سے چند ماہ بعد ہی ہٹا دیا گیا تھا جس کی وجہ ان کی جانبداری کے بارے میں پائے جانے والے خدشات تھے۔ اب وہ ’فاکس نیوز’ پر تجزیہ نگاری کرتی ہیں۔

لیکن صدر ٹرمپ نے شام کو بلاواسطہ طور پر سزا دی تھی۔ عراق میں ایرانی حمایت یافتہ فورسز کی جانب سے ایک امریکی ٹھیکیدار کے قتل کے بعد ایک امریکی ڈرون نے ایرانی انٹیلی جنس میں اہم عہدہ رکھنے والے جنرل قاسم سلیمانی کو تین جنوری 2020 کو بغداد میں نشانہ بنایا۔

سلیمانی اسد کے قریبی اتحادی تھے۔ شامی خانہ جنگی کے دوران ان کو اسد کی مدد کرنے اور تشدد کے ذریعے ان کی حکومت قائم رکھنے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جاتا ہے۔ 

بی بی سی کے پروگرام کی یہ قسط اگلے ہفتے نشر کی جائے گی۔ اس میں صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی فیصلوں پر مزید انکشاف بھی شامل ہیں۔

قومی سلامتی کونسل میں تعینات رہنے والی فیونا ہل کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ٹرمپ کے ذاتی نمبر پر ان سے بات کرتے ہوئے انہیں  شام سے امریکی فوج کو نکالنے پر راضی کیا، جس سے ترکی، روس اور داعش کو خطے میں مزید قدم جمانے کا موقع ملتا۔

تاہم اکتوبر 2019 میں صدر نے شام سے فوج کو واپس بلانے کا اعلان کرنے کے کچھ عرصے بعد ہی یہ فیصلہ واپس لے لیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق عہدیداروں نے ٹرمپ انتظامیہ کے اسرائیل فلسطین تنازعے پر کیے جانے والے فیصلوں پر بھی روشنی ڈالی۔

اطلاعات کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے صدر ٹرمپ کو قائل کیا کہ وہ فلسطینیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے عرب ریاستوں کو ایک مشترکہ دشمن ایران کے خلاف متحد کریں۔

اسرائیل کے امریکہ کے لیے سفیر رون ڈرمر نے ’بی بی سی‘ کو بتایا: ’وزیر اعظم نے اپنی بھرپور کوشش کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کو قائل کیا کہ عرب ریاستوں کے ساتھ ایک تزویراتی کامیابی عین ممکن ہے۔ ایران کے معاملے پر اسرائیل اور عرب ممالک ایک صفحے پر ہیں۔ لوگوں کو اس پر دھیان دینا ہو گا۔‘

فلسطینی رہنماؤں کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ سے تعلقات ختم کرنے کی ایک اور وجہ تھی بیت المقدس۔

حسام زوملوت جو کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سربراہ اور امریکہ کے لیے اس کے مندوب ہیں نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے تل ابیب سے سفارت خانہ منتقل نہ کرنے کے فیصلے کو تبدیل کر دیا اور اسے بیت المقدس کے متنازع علاقے میں منتقل کر دیا۔ جسے کئی لوگوں نے اسرائیل کے اس شہر پر دعوے کی تصدیق کے طور پر دیکھا۔ 

زوملوت کا کہنا تھا: ’میں اس وقت صرف یہ یقینی بنانا چاہتا تھا کہ جئیرڈ (کشنر) کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ہم ان سے کبھی نہیں ملیں گے۔ میں نے ٹھیک یہی جملہ کہا تھا۔ یہ ہمارے درمیان آخری ملاقات ہو گی۔ اور یہ ہمارے درمیان آخری ملاقات تھی۔‘

ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات، سوڈان، مراکش اور بحرین کے درمیان تعلقات معمول پر لانے میں کردار ادا کیا۔ خطے کے کچھ ممالک اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی وجہ سے ماضی میں تعلقات کی بحالی کے حوالے سے ججھک کا شکار تھے۔ 

لیکن ٹرمپ انتظامیہ کا بڑے پیمانے پر تشہیر کردہ منصوبہ جس کے تحت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم ہونا تھا اس طویل عرصے سے جاری رہنے والے تنازعے کو حل نہ کروا سکا۔

فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے اس منصوبے کو ’ایک ہزار بار نہ‘ کہہ کر مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں فلسطینی خود مختاری کے حوالے سے موجود شقیں ناکافی ہیں۔

صدر ٹرمپ کے ترجمانوں نے دی انڈپینڈنٹ کی جانب سے اس سلسلے میں اپنا موقف دینے کی درخواستوں پر کوئی جواب نہیں دیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ