معروف پاکستانی پاپ سٹار، سماجی کارکن اور سیاست دان ابرار الحق نے لاپتہ پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ کے گاؤں میں سکول بنانے کا اعلان کیا ہے۔
محمد علی سدپارہ پانچ فروری سے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کی کوشش کے دوران سے لاپتہ ہیں۔
45 سالہ سدپارہ، جو پاکستان کے سب سے کامیاب ترین کوہ پیما ہیں، کے ساتھ آئس لینڈ کے 47 سالہ جان سنوری، اور چلی کے 33 جوان پابلو موہر کو آخری بار دس دن قبل کے ٹو کے مشکل ترین حصے بوٹل نیک پر دیکھا گیا تھا جو کے ٹو کے بلند ترین مقام سے صرف 300 میٹر نیچے تھے۔
یہ مقام ہیلی کاپٹرز کی بلند ترین پرواز کی حد سے تھوڑا اوپر ہے جو خراب موسم کی وجہ سے وقفے وقفے سے علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کو تلاش کر رہے ہیں۔
’عرب نیوز‘ کے مطابق ابرارالحق نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا: ’میں نے سنا ہے کہ محمد علی سدپارہ کا مقصد اپنے گاؤں میں ایک سکول بنانا تھا۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان کا یہ خواب پورا کریں گے۔ انشااللہ ہم اپنے ہیرو کی یاد میں ان کے علاقے میں سکول بنائیں گے۔‘
I have just heard the news that Muhammad Ali Sadpara wanted to build a school in his village after his mission therefore we have decided to fulfil his dream and Inshahallah a school will be built in the village of our hero in his memory.#muhammadalisadpara pic.twitter.com/0A2X6eJOZg
— Abrar Ul Haq (@AbrarUlHaqPK) February 15, 2021
محمد علی سدپارہ سکردو کے علاقے سدپارہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اس ٹیم کا بھی حصہ تھے جنہوں نے سردیوں میں پہلی بار نانگا پربت کو سر کیا تھا۔
ابرارالحق سہارا فار لائف ٹرسٹ کے چئیرمین بھی ہیں جو ایک غیر منافع بخش فلاحی ادارہ ہے اور ناروال کے نواحی علاقوں میں سال 1998 سے کام کر رہا ہے۔
رواں سال جنوری میں نیپال کی ایک ٹیم نے پہلی بار سردیوں میں کے ٹو کو کامیابی سے سر کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کے ٹو پاکستان اور چین کی سرحد پر واقع ہے اور آٹھ ہزار میٹر سے بلند اب تک وہ واحد چوٹی تھی جسے سردیوں میں سر نہیں کیا گیا تھا۔
کے ٹو کو 1954 میں پہلی بار اطالوی کوہ پیما اکیلی کومیغنونی نے سر کیا تھا۔ یاد رہے کے ٹو کی چوٹی اپنی تیز آندھیوں اور ڈھلوانی سطح کی باعث بہت مشکل سمجھی جاتی ہے۔
سال 2018 تک اسے سر کرنے والے 367 افراد میں سے 86 واپسی کے سفر کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔
اکثر اوقات پھنس جانے والے کوہ پیماوں کی مدد کے لیے پاکستانی فوج کی مدد لی جاتی ہے لیکن خراب موسم امدادی کارروائیوں کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
سدپارہ اور ان کے ساتھی موسم سرما میں کے ٹو کو سر کرنے کی دوسری کوشش کر رہے تھے۔ رواں سال کے ٹو کو سر کرنے کی کوشش میں تین دوسرے کوہ پیما جان سے جا چکے ہیں۔