بلوچستان: کوئلے کی کان میں دھماکے سے چار مزدور ہلاک

کان کن لیبر یونین کے صدر اقبال یوسفزئی کے مطابق یہ حادثہ کان میں گیس بھرجانے کے باعث پیش آیا جس سے کان بیٹھ گئی اور کام کرنے والے مزدور اس میں پھنس گئے، ایک مزدور کو بے ہوشی کی حالت میں نکال لیا گیا، چار دوسرے مزدور ہلاک ہوگئے۔ 

(تصویر: ہزار خان بلوچ)

بلوچستان کےضلع ہرنائی میں کوئلہ کان حادثے میں چار کان کن ہلاک ہوگئے۔

یہ ہرنائی کے علاقے شاہرگ کے کوئلہ کان کےان پانچ مزدوروں کے لیے روزمرہ کی طرح کا دن تھا جب وہ اپنے معمول کے کام کے سلسلے میں ڈھائی ہزار فٹ نیچے کوئلہ نکالنے کے لیے کان کے اندر چلے گئے۔ 

 مزدور کوئلہ نکالنے کے کام میں مصروف تھے کہ کان میں گیس بھرجانےسے دھماکہ ہوا جس سے کان بیٹھ گئی اور یہ مزدور بھی دب گئے۔  

 مزدوروں کے دب جانے کے بعد انہیں نکالنے کے لیے دیگر مزدوروں نے اپنی مدد آپ کے تحت کام شروع کیا، بعد میں ریسکیو ٹیم بھی علاقے میں پہنچ گئی اور کافی جدوجہد کے بعد ایک مزدور کو بے ہوشی کی حالت میں نکال لیا گیا، باقی چار مزدور وہیں پھنسے رہے جو بچ نہ سکے اور ان کی لاشیں کئی گھنٹوں کی جدوجہد بعد نکال لی گئیں۔ 

 کوئلہ کان کے مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے تنظیم کان کن لیبر یونین کے صدر اقبال یوسفزئی نے بتایا کہ یہ واقعہ آج صبح تقریباً گیارہ بجے پیش آیا۔ 

اقبال یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضلع ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں پاکستان منرل ڈویلمپنٹ ( پی ایم ڈی سی ) کی کان میں یہ حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں پانچ کان کن پھنس گئے۔ 

اقبال کے بقول حادثہ کان میں گیس بھرجانے کے باعث پیش آیا جس سے کان بیٹھ گئی اور کام کرنے والے مزدور اس میں پھنس گئے جن میں ایک کو بے ہوشی کی حالت میں نکال لیا گیا، چار دوسرے مزدور ہلاک ہوگئے۔ 

انہوں نے بتایا کہ کان حادثے کے بعد مقامی مزدوروں اور ریسکیو اہلکاروں نے گہرے کان سے مزدوروں کو نکالنے کا کام کیا اور تقریباً چھ گھنٹے کی جدوجہد کے بعد ان کو نکالنےمیں کامیابی مل سکی۔ 

اقبال نے بتایا کہ شاہرگ کی یہ کان ڈھائی ہزار فٹ گہری کان ہے۔ جو پی ایم ڈی سی کی ملکیت ہے۔ 

مزدور تنظیموں کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2020 میں پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں ہونے والے حادثات میں 208 کان کن ہلاک ہوئے، جن میں سے 108 کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ 

اقبال نے بتایا کہ یہ واقعہ ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں کوئلہ کان کے دس مزدوروں کے قتل کے بعد دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ 

اقبال نے بتایا کہ حالیہ واقعے میں مرنے والے مزدوروں کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے سوات سے تھا۔ ضروری کارروائی کے بعد ان کی لاشیں آبائی علاقوں کو روانہ کردی گئی ہیں۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے ہمارے مزدور ہر وقت حادثات کی زد میں رہتے ہیں۔ جن میں سے اکثر جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔ 

اقبال نے بتایا کہ بلوچستان کی کوئلہ کان میں حادثات میں ہلاک ہونے والے بعض مزدوروں کے معاوضے کی رقم کی ادائیگی بھی التوا کا شکارہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ پی ایم ڈی سی کی کوئلہ کان میں ہلاک ہونے والے دو مزدوروں کو معاوضے کی رقم دو سال سے نہیں ملی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واضح رہے کہ کوئلہ کان میں مقامی مزدوروں کے حادثات کی صورت میں ہلاکت کے بعد لواحقین کو بلوچستان حکومت کی طرف سے دو لاکھ روپے معاوضہ دیا جاتا ہے۔ 

لیبریونین کے رہنما کا کہنا ہے کہ کوئلہ کان میں اکثر ایسے مزدور ہیں جن کا تعلق افغانستان سے ہے، جو یہاں رجسٹرڈ نہ ہونے کے باعث معاوضےسے محروم رہتے ہیں۔ لیکن مقامی مزدوروں کو بھی معاوضوں کو ادائیگی نہیں کی جارہی ہے۔ 

واضح رہے کہ رواں سال جنوری کے پہلے ہفتےمیں بلوچستان کے علاقے مچھ میں دس کان کنوں کو مسلح افراد نے ہلاک کردیا تھا۔ 

کان میں پھنسے مزدوروں کو نکالنے کے لیے ریسکیو اہلکاروں اور مقامی مزدوروں نے کام کیا اور چھ گھنٹے بعد چار کان کنوں کی لاشیں کان میں نکالنے میں کامیابی مل سکی۔ 

لیبرتنظیموں کے نمائندے الزام عائد کرتے ہیں کہ  کوئلہ کانوں میں حادثات کی صورت میں بروقت ریسکیو کا کام نہ ہونے اور سہولیات کی عدم فراہمی سے ہلاکتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ 

بلوچستان میں ضلع کچھی ،کوئٹہ، ہرنائی، دکی،چمالانگ اور دیگر علاقوں میں کوئلہ کانیں موجود ہیں جہاں ہزاروں مزدور کوئلہ نکالنے کا کام کرتے ہیں جو روزانہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ہزاروں فٹ گہرائی سے کوئلہ نکالتےہیں۔ 

بلوچستان میں کوئلہ کان کے مزدور جہاں ایک طرف حادثات کا شکار ہوتے ہیں وہاں اب انہیں دہشت گردی کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان