بلوچستان: ضمنی الیکشن میں پی ڈی ایم امیدوار کی کامیابی ’حوصلہ افزا‘

سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ضلع پشین کے ضمنی الیکشن کی حکمت عملی کو حکومت مخالف اتحادی جماعت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، سینیٹ کے انتخابات میں بھی بروئے کار لانے کی کوشش کرے گی۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار عزیز اللہ آغا  کو کل 16 ہزار 88 ووٹ ملے (تصویر: بشکریہ جے یو آئی پشین ٹوئٹر اکاؤنٹ )

بلوچستان کے حلقہ پی بی 20 پشین تھری کی نشست پر رواں ہفتے ہونے والے ضمنی الیکشن میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار عزیز اللہ آغا نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے، جسے سیاسی تجزیہ کار حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے اس اتحاد کے لیے حوصلہ افزا قرار دے رہے ہیں۔

یہ حلقہ بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقے میں ہے، جہاں نظریاتی حوالے سے دیکھا جائے تو جمعیت علمائے اسلام (ف)، پشتوںخوا ملی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا ووٹ بینک زیادہ ہے۔

2013 کے انتخابات میں یہ نشست قومی اسمبلی کا حلقہ 261 کے تحت تھی۔ یہ علاقہ پی بی آٹھ پشین کہلاتا تھا۔

حالیہ کامیابی کے بعد ایک بار پھر جمعیت علمائے اسلام (ف) بلوچستان اسمبلی میں دوسری اور اپوزیشن بینچوں پر سب سے بڑی جماعت بن چکی ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سب سے بڑی جماعت ہے، جس کے پاس 65 کے ایوان میں 24 نشستیں ہیں۔

اس طرح حکمران اتحاد کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی تعداد سات، عوامی نیشنل پارٹی کی چار، بلوچستان عوامی پارٹی (بشمول بی این پی) کی تین، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی دو اور جمہوری وطن پارٹی کے پاس ایک نشست ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق پشین کے ضمنی الیکشن کے نتائج کو غیر متوقع نہیں ہیں اور جس بڑے تناسب سے پی ڈی ایم کے امیدوار کو کامیابی ملی ہے، وہ اپوزیشن اتحاد کی جماعتوں کے لیے حوصلہ افزا ہے۔

بلوچستان کے سیاسی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار اور مصنف جعفر ترین سمجھتے ہیں کہ ضلع پشین کے ضمنی الیکشن کی حکمت عملی کو پی ڈی ایم، سینیٹ کے انتخابات میں بھی بروئے کار لانے کی کوشش کرے گی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں جعفر ترین نے بتایا: ’حالیہ ضمنی انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں جے یو آئی کے امیدوار کو پشتونخوا میپ سمیت پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل اس نشست پر جے یو آئی ف اور پشتونخوامیپ کے درمیان ہی کانٹے کا مقابلہ رہتا تھا۔

جعفر ترین کے مطابق: ’اگر سابقہ ادوار پر نظر دوڑائی جائے تو اس نشست پر 2002 میں جمعیت علمائے اسلام کے مطیع اللہ آغا کامیاب ہوئے اور ان کے قریب ترین حریف پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر کلیم اللہ خان تھے۔‘

 2008میں بھی اس نشست سے جے یو آئی ہی کے ٹکٹ پر مطیع اللہ آغا کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ان انتخابات میں پشتونخوا میپ نے بائیکاٹ کیا تھا اور اس کا فائدہ اے این پی کو ملا، جس کے امیدوار دوسرے نمبر پر رہے۔

2013 میں اس حلقے سے پشتونخوا میپ کے سید لیاقت آغا کامیاب ہوئے تھے جبکہ گذشتہ عام انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے تحت ہوئے جس میں ایک بار پھر جے یو آئی کو کامیابی حاصل ہوئی اور اس کے امیدوار سید محمد فضل آغا یہاں سے رکن اسمبلی منتخب ہوگئے۔ گذشتہ سال سید فضل آغا کی وفات کے بعد یہ نشست خالی ہوئی تھی۔

جعفر ترین مزید کہتے ہیں کہ مجموعی طور پر بلوچستان اسمبلی میں 65 کے ایوان میں حکمران اتحاد کے اراکین اسمبلی کی تعداد 42 اور آزاد و اپوزیشن اراکین کی تعداد 24 ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپوزیشن بینچوں کی اگر بات کی جائے تو سید عزیز اللہ آغا کی کامیابی کے ساتھ اب 11 نشستوں کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت اور دوسری بڑی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی ہے، جس کے اراکین کی تعداد دس ہے۔

اسی طرح اپوزیشن میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے پاس ایک ایک نشست ہے جبکہ ایک نشست آزاد رکن نواب محمد اسلم رئیسانی کی ہے۔

جعفر کے مطابق: ’تاہم سینیٹ انتخابات کے حوالے سے اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ مرکز میں پی ڈی ایم کی تحریک میں پیش پیش رہنے والی عوامی نیشنل پارٹی سینیٹ انتخابات حکمران اتحاد کے ساتھ مل کر لڑے گی، کیونکہ عوامی نیشنل پارٹی صوبے میں مخلوط حکومت کا حصہ ہے اور حکمران اتحاد میں شامل تیسری بڑی جماعت ہے۔‘

واضح رہے کہ یہ انتخابات ایک ایسے موقع پر ہوئے جب بلوچستان سمیت ملک بھر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت مخالف تحریک کا سلسلہ جاری ہے جبکہ تین مار چ کو ملک کے باقی صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی ایوان بالا کے انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں، جس کی بنا پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہی نہیں بلکہ نجی مجالس میں بھی مختلف مباحث اور تجزیوں اور تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔

ضلع پشین کی اس نشست پر ضمنی الیکشن کے دوران پولنگ کے لیے حلقے میں کل 113 پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے تھے، جن میں 45 مردوں کے لیے اور 37 خواتین کے لیے مخصوص تھے جبکہ 31 مشترکہ پولنگ سٹیشن اس کے علاوہ تھے۔ 

 ریٹرننگ آفیسر پشین کے دستخط سے جاری غیر حتمی نتائج کے مطابق اس نشت پر جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار عزیز اللہ آغا کو کل 16 ہزار 88 ووٹ ملے جبکہ آزاد امیدوار عصمت اللہ کو چار ہزار 681 اور بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار عصمت اللہ کو دو ہزار 953  ووٹ ملے ہیں۔ ڈالے گئے درست ووٹوں کی تعداد 29 ہزار 439 ہے، 529 ووٹ خارج ہوئے جبکہ ووٹنگ کی شرح 30.1 فیصد رہی۔

ادھر سیاسی رہنما سمجھتے ہیں کہ پشین کے ضمنی الیکشن کے نتائج صوبے کی سیاست پر مثبت اثرات مرتب کریں گے۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق رکن صوبائی اسمبلی سید لیاقت آغا پر امید ہیں کہ  پی ڈی ایم کا اتحاد سینیٹ اور عام انتخابات میں بھی اسی طرح جاری رہے گا۔

سید لیاقت آغا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشین کے ضمنی الیکشن کے نتائج کو دیکھا جائے تو ہم اسے بارش کا پہلا قطرہ تو نہیں البتہ ایک نئی ابتدا قرار دے سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے باوجود کہ اس نشست پر حکمران جماعت کے امیدوار کو کامیاب بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گئے اور بھاری سرمایہ بھی لگایا گیا، اپوزیشن کے امیدوار کی کامیابی خوشی کی نوید ہے۔

لیاقت آغا نے بتایا کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا اتحاد مثبت پیش رفت ہے اور اس کو مزید جاری رکھنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ سمیت عام انتخابات میں بھی قوم پرست مذہبی جماعتوں کا اتحاد جاری رہنا چاہیے، کیوں کہ اگر ملک میں تبدیلی لانا ہے تو اس اتحاد کو مزید مضبوط بنانا ہوگا۔

لیاقت آغا کا مزید کہنا ہے کہ اگر جمہوری قوتیں اسی طرح اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں تو سینیٹ سمیت عام انتخابات میں جمہوری قوتوں کو ہی کامیابی ملے گی، جس سے نہ صرف ان لوگوں کو اسمبلیوں میں آنے کا موقع ملے گا، جو ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں بلکہ اس سے جمہوریت بحال ہونے کے ساتھ مضبوط بھی ہوگی۔

دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنما سمجھتے ہیں کہ ضلع پشین کی نشست پر پی ڈی ایم کو مطلوبہ ووٹ نہیں مل سکے۔ پارٹی کے مرکزی رہنما اسفند یار کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارے اندازے کے مطابق ضلع پشین کی نشست پر پی ڈی ایم کے امیدوار کو کم از کم 35 ہزار ووٹ ملنے چاہیے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس نشست کے لیے جمعیت سمیت مسلم لیگ ن، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں نے بھرپور مہم چلائی، لیکن اس کے باوجود ان کا امیدوار کم مارجن سے جیتا ہے۔ 

اسفند یار کاکڑ سمجھتے ہیں کہ اس نشست پر بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار کو زیادہ کامیابی ملی ہے، کیوں کہ یہاں ان کا کوئی ووٹ نہیں تھا۔ 

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اس نشست پر پی ڈی ایم کے امیدوار کی کامیابی سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے، سینیٹ میں ان کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست