یہ بلوچ قوم کس مٹی سے بنی ہے بھائی؟

چاہے ان پکے دل والوں کے کچے گھروندے سیلابی ریلا ہی کیوں نہ بہا کر لے گیا ہو، چاہے سخت جان کاشت کاروں کی فصلوں میں لگا کپاس کا نرم پھول طاقتور بہاؤ میں بہہ گیا ہو، ان کی مہمان نوازی کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی۔

رابطہ سڑک تباہ ہونے سے شاہراہ کے دونوں اطراف پھنسے مسافر اور گاڑیاں (تصاویر محمد قسیم سعید)

اسلام علیکم بائی جان! جوڑے؟ طبیعت زبردست؟ خیرے؟ ٹھیک ٹھاک؟ سب ٹھیک؟

چالیس سیکنڈز تک مسلسل جاری رہنے والی یہ علیک سلیک بلوچ عوام کی خاص پہچان ہے۔ میزبانوں کی سرزمین پر یہ سلام اتنی ہی شدت سے دوران گفتگو پلٹ پلٹ کر بار بار آتا ہے۔ پھر چاہے ان پکے دل والوں کے کچے گھروندے سیلابی ریلا ہی کیوں نہ بہا کر لے گیا ہو، چاہے سخت جان کاشت کاروں کی فصلوں میں لگا کپاس کا نرم پھول طاقتور بہاؤ میں بہہ گیا ہو، چاہے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں آمدورفت کے ذرائع محدود ہوچکے ہوں یا کوئی قدرتی آفت، ان کی مہمان نوازی کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی۔

خبر آئی کہ خضدار میں بارشوں نے سیلابی صورت حال پیدا کردی ہے، تو رہا نہیں گیا۔ ویسے بھی بلوچستان کو آج تک خبروں میں ہی پڑھا تھا، ادارے سے خواہش کا اظہار کیا کہ کوریج کے لیے مجھے بھیجا جائے جو پوری ہوگئی۔ ناردن بائی پاس پر ریتیلی زمین جب چٹیل ہونے لگی تو میری دل کی دھڑکنوں کا 'ردھم' بھی تبدیل ہوگیا۔ میں بار بار اپنے شناختی کارڈ کو ٹٹول کر غور سے دیکھتا اور کوئی بھی ایسا لفظ تلاش کرنے کی کوشش کرتا جو اسے 'ڈیتھ سرٹیفکیٹ" میں تبدیل کرنے کی وجہ بن سکتا ہو۔ جمعے کے جمعے نکالی جانے والی ڈھیلی ڈھالی شلوار قمیص جیسے میری ڈھال تھی، جان بوجھ کر دو دن سے شیو چھوڑے رکھی تاکہ خط گہری ہو اور 'جیسا دیس ویسا بھیس' والی بات آجائے، ویسے بھی کیا کچھ نہیں سن رکھا تھا۔

کراچی سے 390 کلومیٹر کا سفر چھ گھنٹے میں مکمل ہوا۔ خضدار میں داخل ہوئے تو سورج سرمئی پہاڑوں کی اوٹ سے بادلوں کا کمبل اتار پھینک چکا تھا اور یہ بادل نیلگوں آسمان پر جگہ جگہ روئی کے گالوں کی طرح بکھر گئے تھے۔

میزبان کی آواز نے صبح کے سحر کو توڑا: 'ناشتے میں کتنی روٹیاں کھائیں گے آپ؟' جیو نیوز کے مقامی نمائندے ایوب بلوچ مجھ سے مخاطب تھے۔

'ڈبل روٹی ہوتی تو دو کھاتا، روٹی ہے تو ایک سے کام چل جائے گا، کراچی والوں کے معدے ویسے بھی چھوٹے ہوتے ہیں،' میں نے نیند بھری آ نکھوں کو بمشکل کھولتے ہوئے جواب دیا۔

تھوڑی دیر بعد اس ایک روٹی کو دیکھ کر میری بھوک اور نیند دونوں جاتی رہیں، پورے ڈیڑھ انچ موٹی اور ایک فٹ لمبی روٹی۔ یہاں مہمان نوازی جیسے پستول کنپٹی پر رکھ کر کی جاتی ہے، ایسی ہی شدت پسندانہ میزبانی کے سامنے مجبور ہوکر بہت مشکل سے تین کپ چائے کے ساتھ نصف روٹی چبائی اور پھر کام کے لیے نکل پڑے۔


میری آنکھوں کے سامنے زمین کے دلدلی سینے پر اوندھے منہ گری دیواریں ہیں۔ سلطان آباد میں میری زندگی کی کم و بیش 50 بہاریں میرا سرمایہ ہیں۔ میری آنکھیں پتھرا گئی ہیں لیکن پھر بھی مجھے عقب کا منظر نظر آرہا ہے، جہاں میرے گھر کی خواتین ضلعی انتظامیہ کے دیے گئے خیمے کے سراخوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر بند کررہی ہیں کہ کہیں کوئی بھولی بھٹکی نظر ان سے راستہ نہ پاسکے۔ کیسے کیسے نشیب و فراز نہیں دیکھے لیکن اس بار سیلابی ریلا اتنا طاقتور تھا کہ سب کچھ بہا کر لے گیا۔

گلی میں کچھ ہلچل ہوئی ہے، کوئی کیمرا اور مائیک اٹھائے میری بربادی کا نظارہ دنیا کو دکھانے چلا آرہا ہے۔ محلے کے کچھ بچے ان کے پیچھے ایسے منڈلا رہے ہیں جیسے مکھیاں مٹھائی پر۔ مٹھائی سے یاد آیا، میں نے آج ناشتہ نہیں کیا ہے، وہ ڈیڑھ انچ موٹی اور ایک فٹ کی روٹی سہ پہر تک جسم میں جان پھونکے رکھتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈھیلی ڈھالی سیاہ شلوار قمیص میں یہ نوجوان دلدلی زمین پر نپے تلے قدم رکھتا ہوا میری طرف بڑھ رہا ہے۔ ہم اپنے گھروندے نہیں بچا سکتے اور یہ شلوار کے پائنچے بچارہا ہے لیکن کب تک؟ بالآخر ایک غلط قدم نے اسے پنڈلیوں تک دلدل میں دھنسا دیا ہے ؎ انہی راستوں سے ہوکر اگر آسکو تو آؤ! میرے قریب پہنچتے پہنچتے یہ کلو کلو بھر چکنی مٹی میں لدی چپلیں اتار کر انہیں ہاتھوں میں اٹھائے ننگے پاؤں قدم بڑھارہا تھا۔

'ہم کراچی سے کوریج کرنے یہاں آئے ہیں؟ یہاں آگے کتنے گھر تباہ ہوئے ہیں؟'

'دو درجن سے زیادہ،' میں نے جواب دیا۔

شاید میرا جواب اسے زیادہ متاثر نہیں کرسکا اور وہ اپنی چپلیں رکھ کر آگے چل دیا۔

'کراچی سے مہمان آیا ہے، کیا کروں؟ آٹا بھی گیلا ہے۔ کھانے کو کچھ نہیں، سر پر چھت نہیں۔" میری پتھرائی ہوئی آنکھوں میں تجسس کا کاجل پھیلنے لگا۔

میرے ہاتھ بے اختیار قریب پڑی اس نوجوان کی چپلوں کی طرف اٹھ گئے جس کا سیاہ رنگ کتھئی دلدلی مٹی سے کہیں کہیں جھانک رہا تھا۔ میں نے برساتی پانی سے اس کو رگڑ رگڑ کر دھونا شروع کردیا۔ لیکن یہ کیا، یہ نوجوان مجھ پر ناراض ہورہا ہے۔ شاید اسے میری مہمان نوازی میں کوئی کمی لگی ہوگی۔ میں نے جھٹ سے میز سے ٹوٹ کر الگ ہونے والا تختہ نکالا۔ زبردستی اس کے پیر اس پر رکھ کر دھلانے شروع کردیے۔ میری پتھرائی ہوئی آنکھیں صرف عقب کا منظر ہی نہیں دیکھ رہیں، بلکہ گہرے نیلے چشموں کے پیچھے اس نوجوان کی نم ہوتی آنکھوں کو بھی دیکھ رہی ہیں۔


'فرحان بھائی کام تو بہت کرلیا، اب اسے دفتر بھیجنا ہے تاکہ 12 بجے کے بلیٹن میں آن ایئر ہوجائے،' میں نے اپنے کیمرہ مین کو کہا اور تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔ صاف چپلیں پہننے کے بعد اب قدم ہلکے پھلکے لگ رہے تھے۔

فرحان الیاس نے فوٹیجز پلے کروانے کے لیے دفتر کال ملائی، لیکن یہ کیا؟

بیک پیک (وہ ڈیوائس جس کی مدد سے ویڈیوز دفتر کو بھیجی جاتی ہیں) کے سگنلز غائب تھے۔ کبھی بیک پیک کو لے کر ایک گلی سے دوسری گلی جاتے، کبھی خضدار پریس کلب کے کونوں میں گھستے، کبھی ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر چڑھتے، اتنی کوششوں کے بعد بھی مجال ہے جو کوئی ایک ویڈیو کلپ بھی دفتر تک پہنچ پائی ہو۔

'میں نے کہا تھا نہ یہاں کام کرنا جتنا مشکل ہے، اس سے زیادہ مشکل اسے دفتر بھیجنا ہے،' نخیف سے جسم کے ساتھ بھاری آواز میں قہقہہ لگاتے ایوب بلوچ نے میری چڑچڑاہٹ میں اضافہ کردیا۔

بدقسمتی سے ایک تنگ گلی میں ہماری گاڑی پھنس گئی۔ سوچا جب تک گاڑی نکلے یہاں بھی سگنلز ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اس فیصلے نے اس بدقسمتی کو خوش قسمتی میں بدل دیا اور سگنلز مل گئے۔ ابھی اپ لوڈنگ 95 فیصد ہی ہوئی تھی کہ ایک رکشہ سامنے آکر رکا اور ایک غصیلا نوجوان ہماری گاڑی کی طرف لپکا۔

میرا دل پہلے بہت زور سے دھڑکا اور پھر یک دم رک گیا۔ مجھے اپنے سر کے گرد ایک عجیب خنکی کا ہالا محسوس ہو رہا تھا۔ صبح کی روٹی چائے سمیت حلق کو چڑھ آتی تھی۔ زبان پر تیزابیت کا ذائقہ تھا۔ کہیں یہی تو وہ ذائقہ نہیں جس کے بارے میں کہا گیا کہ کل نفس ذائقہ الموت؟

اس نوجوان نے شیشہ پیٹا اور بلوچی میں ہمارے پٹھان ڈرائیو سے توتو میں میں کرنے لگا۔ ڈرائیور نے پشتو میں جواب دے کر اس الجھن کو مزید بڑھادیا۔ میرے خشک گلے میں اردو جیسے پھنس کر رہ گئی تھی۔ میں نے گہری سانس پھیپھڑوں میں بھر کر گاڑی سے اترنے کا فیصلہ کیا۔ دیکھا تو رکشے میں ایک ضعیف مائی مجھ سے بھی زیادہ مشکل سے سانس کھینچ کھینچ کر زندگی کی ڈوری بمشکل تھامے ہوئے تھی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ مریض کو یہاں سے لے جانا چاہتے ہیں اور ہمیں گاڑی کو ہٹانے کا کہہ رہے ہیں۔

راستہ دینے کے لیے ہلکی سی جنبش سے حساس سگنلز ایک بار پھر روٹھ گئے۔ یوں 95 پر چھوڑا ہوا اپ لوڈنگ کا سفر 'صفر' سے شروع کرنا پڑا۔ بچپن میں کھیلا سانپ سیڑھی کا کھیل یاد آگیا جس میں سو کے قریب پہنچ کر بھی کبھی کبھی کھیل دوبارہ شروع کرنا پڑجاتا تھا۔ 12 بجے کے بلیٹن کے لیے دیا گیا مواد خدا خدا کرکے چھ بجے آن ایئر ہوا، لیکن اگلے چار دن کی رپورٹنگ پلے کروانے کے لیے ہمیں 'گرے سپاٹ' مل چکا تھا۔

پہاڑوں اور زمین پر برسنے والی بارش میں رفتار کا فرق ہوتا ہے۔ سنگلاخ پہاڑ برساتی ریلے کے لیے 'پھسل پٹی' بن جاتے ہیں اور نیچے آتے آتے بپھرا ہوا برساتی ریلا سامنے آنے والی ہر چیز کو تہس نہس کردیتا ہے۔ بلوچستان کو سندھ سے جوڑنے والی قومی شاہراہ ایم ایٹ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میرے لیے اس سے زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ پانی کے کٹاؤ کے باعث یہ شاہراہ کئی جگہوں سے محرابی انداز میں متاثر ہوئی تھی لیکن کچھ جگہوں پر شارپ کٹ نظر آتا تھا۔ میں نے مقامی نمائندے سے سوال کیا تو وہ بولا، یہ تو ہوگا!

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ