ٹیکنالوجی نے جہاں زندگی کے ہر میدان میں اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہیں وہاں زراعت کے شعبے میں بھی اب کسان ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر ٹھٹہ سے منسلک ایک چھوٹا سا زرعی علاقہ جھرک ہے جہاں کسانوں نے بہتر پیداوار کے لیے ڈرون کیمروں کی مدد سے کھیتوں کا ڈیٹا اور ایمجری (تصاویر) حاصل کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔
محمد اشرف شیخ جنہوں نے اپنی فصلوں پر اس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا خود بھی پیشے کے اعتبار سے ایگریکلچر میں پی ایچ ڈی حاصل کر چکے ہیں۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ کاشتکاری میں اب جدت کی ضرورت ہے۔ وہ جھرک میں فارمنگ کے مختلف نئے طریقہ کار متعارف کروا چکے ہیں جن میں ملچنک اور ڈرپ ایری گیشن جیسی نئی اور کارآمد تدابیر شامل ہیں۔
اپنے کھیتوں میں ڈرون کے استعمال پر ان کا کہنا تھا: ’ڈرون کیمرہ زمین کی لیولنگ، فصل کی کوالٹی، پانی کی مناسب ترسیل اور پودوں کی مانیٹرنک کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوگا۔‘
کرونا کے پیش نظر فوڈ سکیورٹی کے ابھرتے ہوئے مسائل، دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پس منظر میں یہ ایک انتہائی اہم اقدام ہے۔
پاکستان میں موجود ایک سٹارٹ اپ ’پریسیشن برڈ‘ نے ان کسانوں، جو غذائی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں، کو اپنی خدمات آفر کی ہیں اور ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے فصلوں کی بہتر نگرانی اور افزائش کو یقینی بنانے میں مدد دی ہے۔
شہیر جنہوں نے الیکٹرونکس انجینئرنگ کرنے کے بعد اس سٹارٹ اپ کا آغاز کیا کہتے ہیں کہ انہوں نے شوق کے طور پر ڈروںز کا استعمال مختلف شعبہ جات میں مانیٹرنگ کے لیے شروع کیا۔
زراعت میں ڈرون کیمرے کے استعمال کا خیال انہیں پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کی خراب ہوتی صورت حال کی بنا پر کرنا پڑا۔
شہیر کے مطابق پاکستان کو بھی اب دنیا کی طرح ’سمارٹ ایگریکلچر‘ کی طرف قدم بڑھانے ہوں گے تاکہ زرعی پیدوار میں اضافہ اور فصل کے معیار کو بہتر بنایا جاسکے۔
’ڈرون کا استعمال زراعت میں مختلف انداز سے ہوسکتا ہے۔ اس سے کسان نہ صرف ٖفصل کا میعار بلکہ کھیت پر ادویات کا سپرے، موثر آبپاشی، فصل کا معیار و مقدار اور فصل کے ممکنہ پیداوارکے بارے میں پیشگوئی بھی کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرین کے مطاق اگلے چند سالوں میں دنیا بھر میں آبادی کا ہندسہ نو ارب سے تجاوز کر جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی اجزائے خورد و نوش کی مانگ بھی 70 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔
ایسے حالات میں پاکستان کے کسانوں کو دنیا بھر کے کاشتکاروں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نئی اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئےکار لانا ہوگا۔
ثناںخواں جو کہ ایک سال کے عرصے سے زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں اور اپنا بینکنگ کا پیشہ چھوڑ کر خاندانی کام کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اس ضمن میں ہونے والی تکنیکی پیش قدمی سے بخوبی واقف ہیں۔
ان کے مطابق اب پاکستان کے کسان کو اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
’فارمنگ میں ڈیٹا اکھٹا کر کے اس کے مطابق کام کرنا اور سمارٹ فارمنگ کی طرف متوجہ ہونا دورحاضر کی اولین ضرورتوں میں سے ایک ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں شدید موسمیاتی تبدیلی واضح نظر آئی ہے اور اسی وجہ سے کئی فصلیں خراب ہوئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب روز مرہ استعمال ہونے والی غذائی اجناس بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور نظر آتے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں زراعت کے شعبے میں جدت اختیار کرنا ہوگی اور پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہوں گے بصورتِ دیگر مستقبل میں غذائی ضروریات کو پورا کر پانا ایک مشکل امر ثابت ہوگا۔