افغانستان سے انخلا: ’طالبان سے مشاورت ہونی چاہیے‘

امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے ایک آن لائن فورم سے خطاب میں کہا: ’پہلا فریق جس سے مشاورت کی ضرورت ہے وہ طالبان ہیں۔ ان ہی سے یہ عمل شروع ہونا چاہیے۔‘

(اے ایف پی)

امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے کہا ہے کہ واشنگٹن کو افغانستان سے اپنی فوج کے مکمل انخلا کے لیے یکم مئی کی ڈیڈ لائن میں ممکنہ توسیع پر طالبان سے مشاورت ہونی چاہیے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سٹمسن سینٹر تھنک ٹینک کے زیر اہتمام ایک آن لائن فورم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی سفیر نے کہا: ’پہلا فریق جس سے مشاورت کی ضرورت ہے وہ طالبان ہیں۔ ان ہی سے یہ عمل شروع ہونا چاہیے۔‘

اسد مجید خان نے مزید کہا: ’میرے خیال میں اس کو ایک ختم شدہ عمل کی حیثیت سے پیش کرنا صرف مشکلات پیدا کرے گا۔‘

اس سے قبل پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا تھا کہ افغانستان سے عجلت میں بین الاقوامی انخلا غیر دانشمندانہ ہو گا۔

گذشتہ سال ستمبر میں امریکی اخبار ’دا واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں وزیراعظم عمران خان نے لکھا تھا: ’ہم نے یہ بھی سیکھا کہ باہر سے طاقت استعمال کر کے افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام مسلط نہیں کیے جا سکتے۔ افغانستان میں پائیدار امن صرف اسی صورت میں ہو گا جب قیام امن کا عمل افغان رہنماؤں کی قیادت میں ہو اور وہ اس کی ذمہ داری لیں۔‘

عمران خان کا مزید کہنا تھا: ’وہ تمام فریق جنہوں نے افغانستان میں امن کے لیے کام کیا انہیں چاہیے کہ وہ وہاں سے اتحادی فوج کی واپسی کی غیرحقیقی ٹائم لائن کی خواہش کی مزاحمت کریں۔ افغانستان سے جلدبازی میں ہونے والی بین الاقوامی واپسی غیردانش مندانہ ہو گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمیں ایسے علاقائی عناصر پر بھی نظر رکھنی ہوگی جنہوں نے قیام امن میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور جغرافیائی اور سیاسی مفادات کی خاطر افغانستان میں عدم استحکام کو اپنے مفاد میں سمجھتے ہیں۔‘

افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کی ڈیڈ لائن ایک ایسے موقعے پر آ رہی ہے جب حالیہ ہفتوں میں سڑک کنارے ہونے والے بم دھماکوں کے نتیجے میں سرکاری اہلکار، جج، صحافی اور سماجی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ خونریزی طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے مابین قطر میں جاری بین الافغان امن مذاکرات کے عمل کے دوران بھی جاری ہے۔

دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کی ٹیم طالبان کے ساتھ اس امن معاہدے کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے جس پر ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال فروری میں دوحہ میں دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے کے تحت چند شرائط کے بدلے تمام امریکی اور اتحادی افواج کو یکم مئی تک افغانستان سے انخلا کرنا ہے۔

جب اس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے تو امریکہ نے افغانستان میں موجود 12 ہزار فوجیوں کی تعداد کم کرکے محض 2500 کر دی تھی لیکن معاہدے کے باوجود پر تشدد واقعات میں بدستور اضافہ جاری ہے جبکہ امریکی اور افغان حکام ان حملوں کے لیے طالبان پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا