حمزہ شہباز 20 ماہ بعد ضمانت پر رہا

لاہور ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ ریفرنس میں حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں ایک، ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔

حمزہ شہباز کو 11 جون، 2019 کو گرفتار کیا گیا تھا (اے ایف پی)

لاہور ہائی کورٹ نے بدھ کو منی لانڈرنگ ریفرنس میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں ایک، ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ضمانت پر رہا کر دیا۔

جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل بینچ نے آج حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ نیب کی طرف سے سپیشل پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری پیش ہوئے جبکہ حمزہ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز نے دلائل دیے۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حمزہ 2008 میں رکن قومی اسمبلی بنے اور 2018 میں پنجاب کے رکن اسمبلی، ان کے والد تین بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے، اس خاندان کے اثاثے پہلے 21 ملین روپے تھے جو 2018 میں سات ارب 32 کروڑ روپے تک پہنچ گئے۔ انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ 2003 میں حمزہ کے اثاثے 18 ملین روپے تھے جو 2018 میں 53 کروڑ روپے سے زائد تک پہنچ گئے۔

انہوں نے کہا کہ فنانشل مانیٹرنگ کی جنوری 2018 کی رپورٹ میں حمزہ کے اکاؤنٹس میں مشکوک ترسیلات کا انکشاف ہوا، 23  اکتوبر، 2018 کو انکوائری کی منظوری ہوئی اور حمزہ کو طلب کیا گیا، جنھوں نے بیرون ملک ترسیلات کے متعلق کوئی جواب نہیں دیا۔

نیب پراسیکیوٹر فیصل رضا نے عدالت کو مزید آگاہ کیا کہ نیب نے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت انکوائری کو آگے بڑھایا اور تین اپریل، 2019 کو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے، عدالت سے درخواست ضمانت واپس لینے پر 11 جون، 2019 کو وہ گرفتار ہو گئے۔

‘20 اگست، 2020 کو حمزہ اور 20 دیگر افراد کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا، ان میں سے 10 ملزمان ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں، چھ ملزمان اشتہاری ہیں جبکہ چار وعدہ معاف گواہ ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر کے مطابق نصرت شہباز، رابعہ عمران، سلمان شہباز، عمران یوسف سمیت چھ ملزم اشتہاری ہیں۔ 11 نومبر، 2020 کو منی لانڈرنگ ریفرنس میں فرد جرم عائد کی گئی، جس کے بعد 110 گواہوں میں سے 10 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جا چکے۔

انہوں نے کہا کہ ان پر صرف بےنامی دار ہونے کا الزام لگایا گیا جبکہ وہ نہ صرف بے نامی دار ہیں بلکہ انہوں نے شریک ملزمان کی معاونت بھی کی۔ ’حمزہ منی لانڈرنگ میں سہولت کار، ساتھی اور فائدہ حاصل کرنے والے ہیں۔‘

نیب پراسیکیوٹر نے حمزہ شہباز کے مربوط نیٹ ورک کا چارٹ عدالت میں پیش کیا، جس کے مطابق شریک ملزم فضل داد عباسی ملزم حمزہ شہباز سے کیش لے کر شاہد شفیق کو دیتے تھے، منی لانڈرنگ کے لیے پانچ، چھ افراد کے ہاتھوں سے رقم ہو کر حمزہ شہباز کے قریبی عزیزوں کے اکاؤنٹس میں جاتی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وقار ٹریڈنگ، ہارون یوسف ٹریڈنگ اور دیگر کمپنیاں سلمان شہباز کی کمپنیاں ہیں جس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا منظور احمد پاپڑ والے اور 23 لوگوں کے مبینہ طور پر شناختی کارڈ استعمال کر کے منی لانڈرنگ کی گئی، منظور اور دیگر لوگ کہتے ہیں کہ ان کا پاسپورٹ نہیں اور کچھ تو کبھی بیرون ملک ہی نہیں گئے۔ ’منظور احمد پاپڑ والے کے نام پر لاکھوں روپے جعلی ٹی ٹیز لگائی گئیں۔ آفتاب احمد، یاسرمشتاق، مشتاق چینی اور شاہد محمود وعدہ معاف گواہ ہیں، اس لیے ان کی درخواست ضمانت مسترد کی جائے۔‘

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا جن لوگوں کے نام استعمال ہوئے ان کی تفصیلات آپ کے پاس موجود ہیں؟اس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ 161 لوگ ہیں جن کے نام سے جعلی ٹی ٹیز لگوائی گئیں اور ان افراد کا احتساب عدالت میں بیان قلم بند کروانا ہے، ملزم حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں بڑی رقم منتقل ہوئی، وہ بینی فشری ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں یہی فیصلہ ہونا ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنا ہے یا نہیں، ایف اے ٹی ایف کا اجلاس 22 سے 25 فروری تک ہونے جا رہا ہے۔ اس پر جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے قرار دیا کہ ایف اے ٹی ایف اور چیز ہے، ہم نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ نے صرف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت تحقیقات کیں؟ آپ کہنا چاہ رے ہیں کہ منی لانڈرنگ کا پیسہ دہشت گردی کے لیے استعمال ہوا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصل بخاری نے اس پر جواب دیا کہ حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں بڑے پیمانے پر بیرون ملک ترسیلات آئیں لیکن حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ اس نیٹ ورک سے پیسہ کہاں کہاں استعمال ہوا۔ حمزہ کے وکیل اعظم نذیر تارڈ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان الزامات کے خلاف وہ عدالت کو پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ نیب نے جو بھی الزامات لگائے وہ ٹرائل کورٹ میں ثابت نہیں کر سکے، ریفرنس بنانے کے بعد ثبوت ابھی تک پیش نہیں ہوسکے۔

’اعانت جرم کے الزام میں دشواری کی بنیاد پر ضمانت کی درخواست دائر کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، ٹرائل کی تاخیر کے معاملے پر کئی فیصلے آ چکے ہیں، عدالت کو آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اختیارات ہیں کہ تاخیر کی بنیاد پر ضمانت منظور کر سکتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ملزم احتساب عدالت میں طلب کرنے پر پہلے بھی پیش ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی پیش ہوں گے، انہیں مزید حراست میں رکھنے کا جواز نہیں۔ اس پر عدالت نے حمزہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ایک، ایک کروڑ روپے کے مچلکے جمع کرانے پر رہائی کا حکم دے دیا۔

پنجاب کے اپوزیشن لیڈر کی ضمانت منظور ہونے پر ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ انہیں نواز شریف سے وفاداری کی سزا دی جارہی ہے، ان کی اکلوتی بیٹی 20 ماہ تک والد کے بغیر بڑی ہوتی رہی۔

’نیب کے پاس ثبوت ہیں تو 20 ماہ میں منی لانڈرنگ یا آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس کا فیصلہ کیوں نہیں ہوسکا؟ انہوں نے حمزہ کی رہائی کو جمہوریت کی فتح قرار دیا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست