نیوٹرل گیم

سوال تو حکومت سے بھی ہوگا کہ ووٹ بِکنے اور ہارس ٹریڈنگ کے مخالف بیانیے والے ڈپٹی چیئرمین کے اضافی ووٹوں پر مطمئن اور خوش کیوں ہیں۔ سنجرانی کی جیت کے لیے کام کرنے والوں نے البتہ اِس بار نہایت باریک کام نفاست کے ساتھ کیا ہے۔

(ٹوئٹر)

گیم جیتنے کے لیے بعض اوقات صرف ایک مضبوط تگڑی ٹیم ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھی نیوٹرل ایمپائر اور نیوٹرل وینیو بھی ٹیم کو جیت کے لیے اعصابی اور نفسیاتی مدد فراہم کرتے ہیں۔

چھوٹے میدان میں یہی ہوا۔ وینیو بھی نیوٹرل تصور کیاگیا اور ایمپائر بھی نیوٹرل۔ بڑے میدان میں البتہ صورتحال اِس کے برعکس رہی۔ چھوٹے میدان میں ایک تو فریق کی جیت کے لیے جزوی ’رضا‘ بھی شامل تھی، کچھ دلچسپی بھی کم رہی اور کچھ عنصر حد درجہ خود اعتمادی کا بھی شاملِ حال رہا۔

بڑے ایوان میں البتہ حقیقتِ ’صادق‘ کی بھرپور یاددہانی کروائی گئی کہ حدود یا ریڈ لائنز تاحال موجود ہیں اور ’اعتماد کا ووٹ‘ ابھی تک اپوزیشن (خاص طور پر پیپلزپارٹی) ’وہاں‘ سے حاصل نہیں کر پائی۔ جو جھٹکا قومی اسمبلی میں حکومت کو لگا تھا وہی جھٹکا سینیٹ میں اپوزیشن کے حصے میں آیا ہے۔ ’سات‘ کے ذومعنی ہندسے کو اوپر نیچے برقرار رکھ کر پیغام یہ بھی دیا گیا کہ فی الحال ہم ’ساتھ ساتھ‘ ہیں۔

پیپلزپارٹی سمیت پی ڈی ایم نے فیصلہ توکیا ہے کہ وہ صادق سنجرانی کی جیت کے خلاف عدالت جائے گی اور اگر عدالت نے قانونی بنیادوں پر ہی فیصلہ کیا تو قوی امید ہے کہ بھونچال آئے گا اور گیلانی کے حق میں فیصلہ آسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایمپائر فی الحال اتنے بھی نیوٹرل نہیں ہوئے اور اتنی کچی گولیاں بھی نہیں کھیلے ہوئے۔

سو میری ناقص نظر میں اپوزیشن کو عدالت سے کچھ خاص یا کسی بڑے ریلیف کی بڑی امیدیں نہیں باندھنی چاہئیں اور فی الحال چھوٹے میدان کی کامیابی پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔

مسئلہ لیکن دوسرا بھی تو موجود ہے کہ سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کے لیے حکومتی امیدوار کو زائد ووٹ کیسے پڑ گئے اور اپوزیشن امیدوار کے ووٹ کم کیوں ہوگئے۔ حوصلہ ہار جانے والی بات کم از کم کوئی تگڑا وزن نہیں رکھتی۔ یہ کوئی کرکٹ کی گیم تو تھی نہیں کہ ایک میچ ہارا تو اگلے کے لیے مورال ڈاؤن ہوگیا۔ یہ پارلیمانی، آئینی، قانونی اور سیاسی جنگ تھی جس میں ایک ایک قدم کی جیت بہت دیرپا معانی اور مقاصد رکھتی ہے۔ ڈپٹی کی سیٹ پر اپوزیشن جیت جاتی تو چیئرمین کی سیٹ کے لیے اپوزیشن کا کیس مضبوط ہو جاتا لیکن اب جو اضافی چھ ووٹ حکومتی امیدوار مرزا آفریدی کے کھاتے میں گئے ہیں ان کی جوابدہی اپوزیشن سے ہی ہونی چاہئے جس کا جواب اپوزیشن کے لیے بہت مشکل ہے۔

سوال تو حکومت سے بھی ہوگا کہ ووٹ بِکنے اور ہارس ٹریڈنگ کے مخالف بیانیے والے ڈپٹی چیئرمین کے اضافی ووٹوں پر مطمئن اور خوش کیوں ہیں۔ سنجرانی کی جیت کے لیے کام کرنے والوں نے البتہ اِس بار نہایت باریک کام نفاست کے ساتھ کیا ہے۔

عدم اعتماد میں تو صادق سنجرانی صاحب کے حصّے میں 14 ووٹ اضافی آ گئے تھے جس کا اخلاقی بوجھ تاحال وہ اور ان کے ساتھی، حمایتی، ہمدرد سب اٹھا رہے تھے لیکن اب کی بار سنجرانی کے جائز 48 ووٹ ہی برقرار رکھے گئے اور یوں نہ صرف اُن کے اور اپنے اخلاقی بوجھ سے چھٹکارا حاصل کیا گیا بلکہ جائز ووٹوں سے نہ صرف آئینی، قانونی و پارلیمانی جیت یقینی بنائی گئی بلکہ اخلاقی بنیاد بھی دوبارہ حاصل کرلی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مشکل میں فریقِ مخالف اپوزیشن کو ڈالا گیا اور وہ بھی ایسے باریکی اور نفاست سے کہ اُنہی کی گراؤنڈ پر اُن کو آؤٹ کیا گیا۔ اب اپوزیشن لگی رہے قانونی جنگ لڑنے کی موشگافیوں میں اور عرق ریزی کرتی رہے کہ مسترد شدہ ووٹ اصل میں درست ہیں لیکن سُنوائی اب مشکل ہی نظر آتی ہے۔

دوسری جانب، جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ، ڈپٹی کی سیٹ پر حکومت کو اضافی ووٹ پڑنے کا وبال بھی اپوزیشن کو سہنا پڑے گا اور جو مجھے نظر آتا ہے کہ ہو سکتا ہے اِس کا تذکرہ اب عدالت میں بھی ہو۔ ایسے میں اپوزیشن کے پاس آپشنز اب کیا رہ جاتے ہیں۔

سینیٹ میں ناکامی کے بعد اگلا کڑا امتحان اپوزیشن خاص کر پیپلزپارٹی کے لیے 22 مارچ کو الیکشن کمیشن میں گیلانی نا اہلی کیس کا ہے۔ فی الحال کم از کم پیپلزپارٹی کی زیادہ توجہ گیلانی کو نا اہل ہونے سے بچانے پر رہے گی۔ سینیٹ کی کامیابی کے بعد حکومت کا مورال مزید اوپر چلا گیا ہے جس کا آغاز قومی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ سے ہوا تھا۔ اپوزیشن کا مورال البتہ نیچے ضرور گیا ہے۔ ایسے میں نہ تو حالات اور نہ ہی واقعات سازگار ہیں کہ وزیراعظم یا چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جاسکے۔ اگر جلدبازی میں لائی بھی گئی تو موجودہ حالات میں ناکامی کا شکار ہو سکتی ہے۔ پنجاب میں البتہ تحریک عدم اعتماد کے لیے حالات بھی سازگار ہیں اور جذبات بھی موافق ہیں۔

اِن ہاؤس تبدیلی کا آغاز اپوزیشن کو پنجاب سے کرنا چاہیے اور اِسی دوران لانگ مارچ کی تاریخ بھی قریب آ جائے گی۔ پنجاب میں اسمبلی کے اندر جنگ اور مرکز میں سڑکوں پر احتجاج اپوزیشن کے لیے معاون و مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن اِس کی گارنٹی شدہ کامیابی کے لیے اپوزیشن کو ماحول بنانا ہوگا اور ماحول تشکیل دینے کی کامیابی ہی اگلی سیاسی فتح کا پیش خیمہ ہوگی لیکن اس کام کے لیے اپوزیشن کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت اور مختلف محاذ کی چومکھی لڑائی اب لڑنی ہوگی۔ اگر پھونک پھونک کر اور ناپ تول کر آئندہ کے سیاسی قدم اٹھائے گئے تو امکان غالب ہے کہ نیوٹرل ایمپائر اور نیوٹرل وینیو پر ایک اور نیوٹرل گیم اپوزیشن جیت جائے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر