عوام بمقابلہ فوج

میانمار کے حالات میں ترقی پذیر اور پِسے ہوئے طبقاتی معاشروں کے لیے سوچنے اور سیکھنے کو بہت کچھ موجود ہے۔

(اے ایف پی)

یہ کہانی ہے اس ملک کی ہے جس نے سَتّر سال پہلے تاجِ برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ بھارت اور چین کی سرحدوں سے متّصل اس نوزائیدہ غریب ملک نے آزادی کے بعد ترقی اور خود مختاری کے سفر کا آغاز کیا ہی تھا کہ آسیب کے سائے نے آن گھیرا اور فوجی مارشل لاؤں کے ایک طویل دور کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ہر فوجی آمر کے اندر فِیڈ کردہ قدرتی خودکار نظام کے تحت ہر جنرل نے اس بدنصیب ملک کے عوام کو روشن خوشحال مستقبل کے سہانے خواب دکھائے۔ اقتدار کو طول دینے کے لیے جنرلوں نے سیاست کا سہارا لیا اور نتیجتاً یہ غریب ملک مزید غربت اور بدحالی کا شکار ہوتا گیا۔

طویل عرصے کے مارشل لاؤں نے البتہ اس ملک میں ہر طبقہ، ہر ادارے، ہر سیکٹر میں فوج کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر کردی۔ ملکی سیاست، معیشت، خارجہ پالیسی یہاں تک کہ بیوروکریسی بھی فوج کے تابع آگئی۔ 1970 کی دہائی میں اِس ملک نے ایک آئین کی بنیاد بھی رکھی لیکن آئین اور جمہوریت سے خوفزدہ اور نالاں جنرلوں نے اپنے مختلف ادوار میں ملکی آئین کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے اسے موم کی ناک بنائے رکھا اور آئین کو محض اپنے اقتدار کو طول دینے کے ایک ٹُول (Tool) کے طور پر ہی استعمال کیا۔

اسی آئین کے تحت مرضی کی سیاسی جماعت تشکیل دی گئی لیکن اس سیاسی جماعت کو محض ہائبرڈ کے طور پر ہی استعمال کیا گیا اور اصل طاقت، اقتدار اور اختیار فوج کی مُٹھی میں ہی مقّید رہا۔ طویل عرصے کی فوجی حکومتوں میں اس ملک پر کئی عالمی پابندیاں بھی لگیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بھی ہوتی رہیں۔

اس ملک میں البّتہ سول اور ملٹری قوتوں، جمہوری اور غیر جمہوری آوازوں کے درمیان کشمکش برقرار رہی اور آخرِکار ایک طویل کٹھن جدوجہد کے بعد اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے اواخر میں اس ملک میں عام انتخابات ہوئے، ملٹری ڈکٹیٹر کو شکست ہوئی، جلا وطن اپوزیشن رہنما ملک واپس لوٹے، سیاسی قیدی جیلوں سے رہا ہوئے اور ایک سویلین حکومت قائم ہوئی۔ لیکن جب ایک طویل عرصہ اقتدار بلا شرکت غیرے فوج کے پاس رہا ہو تو یک دم اس کا ٹرانسفر سویلین حکومت کے پاس جانا یا عوامی سیاسی جماعتوں کو منتقل کر دینا ایک مشکل کام ہوتا ہے اور یہی اِس ملک کی فوج کے ساتھ بھی ہوا۔

چند جنرلوں نے سیاست اور حکومت میں مداخلت بند نہ کی یہاں تک کہ اگلے عام انتخابات بھی آن پہنچے۔ مقبول سیاسی رہنما کے مقابلے میں فوج نے ایک دوسری سیاسی جماعت کی پشت پناہی کی اور جنرل الیکشن میں اپنی فیورٹ سیاسی جماعت کو جتوانے کے لیے ہر جتن کیے لیکن جب الیکشن ہوئے تو عوام کی بڑی تعداد نے ووٹ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے حق میں دیے۔

مخالف سیاسی جماعت اور فوج کی فیورٹ اور سپورٹ رکھنے والی جماعت نے دھاندلی کے الزامات لگانے شروع کردیے، دھاندلی کی تحقیقات اور نئے الیکشن کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ملک کے الیکشن کمیشن نے اِس سیاسی جماعت کے دعوے مسترد کردیے اور قرار دیا کہ ملک میں کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی اور انتخابات شفاف ہوئے ہیں۔

حالات بگڑنا شروع ہوئے جن کے پیچھے خود فوج کا ہی ہاتھ تھا اور اس قدر بگڑے کہ آخرِ کار یکم فروری 2021 کو فوج نے ایک بار پھر اقتدار پر براہِ راست قبضہ کرکے مارشل لاء نافذ کر دیا۔

یہ ملک ہے میانمار (جو کسی زمانے میں برما کے نام سے جانا جاتا تھا) اور یہ کہانی ہے وہاں کی سول ملٹری کشمکش کی جو اب عوام بمقابلہ فوج کے انقلاب کی داستان میں ڈھل رہی ہے۔ پوری دنیا ششدر میانمار کے حالات کو دیکھ رہی ہے جہاں عوام کا سمندر فوجی مارشل لاء کے خلاف ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آیا ہے۔

کیا بُدھ کیا مسلمان کیا عیسائی ہر مذہب کے ماننے والے حالیہ تفریقوں کو بھلا کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے سڑکوں پر ڈکٹیٹرشپ کے راستے کی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔ ملک کا ہر طبقہ مارشل لائی فوجی جرنیلوں کے خلاف انقلاب کی آواز بن گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوجوان بزرگ مرد خواتین ہر شعبے کے لوگ فنکار اداکار یہاں تک کہ ملک بھر کے شیفس (کھانا پکانے کے ماہر) بھی اپنے اپنے انداز سے اس ملک گیر انقلاب کا حصّہ ہیں۔ بیوروکریسی جو ایک طویل عرصہ فوج کے ما تحت اور زیرِ اثر رہی ہے، اس کے افسران نے کام کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اور تو اور معذور افراد بھی اپنا جلوس لے کر سڑکوں پر نکل آئے کہ وہ اِس اپاہج نظام کا حصّہ نہیں بنیں گے۔

سڑکوں پر جگہ جگہ (We Want Democracy) ’ہم جمہوریت چاہتے ہیں‘ لکھ دیا گیا ہے۔ انکار کی ایک ایسی پکار پورے ملک میں اٹھی ہے کہ کونہ کونہ اس للکار سے گونج رہا ہے۔ فوجی جنرل حیران پریشان حواس باختہ ہیں کہ جس ملک پر بلا شرکت غیرے بلا چوں و چراں کئی دہائیوں تک راج کیا ہے وہاں آخر ایسی کیا کایا پلٹ گئی ہے کہ نہ صرف ان کے اقتدار کو بلکہ پورے نظام کو ہی چیلنج کیا جا رہا ہے۔

فی الحال تو نئے فوجی آمر نے ایک سال تک کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے اور عوام سے پہلے خطاب میں وعدہ کیا ہے کہ وہ جلد ہی ملک میں صاف شفاف آزادانہ الیکشن کروائے گا اور یہ کہ وہ عوام کا خیرخواہ ہے اور ملک میں جلد ہی حقیقی جمہوریت قائم کی جائے گی۔ لیکن عوام نئے فوجی آمر کی بات سننے کو تیار نہیں اور ملک بھر میں انقلاب کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔

اس انقلاب کو اب نوجوان خون کی حیات بھی مل چکی ہے۔ 20 سالہ طالبہ پولیس اور فوج کی طرف سے جلوس کو روکنے کے لیے چلائی جانے والی گولی سے ہلاک ہوئی۔ یہ گولی اس طالبہ کے سر میں لگی جس کے بعد احتجاج میں مزید شدت آگئی۔

میانمار کے نوجوان، اساتذہ، مزدور اور وکلاءاس انقلاب کا ہر اوصل دستہ ہیں اور یہی وہ اصل عوامی طبقات ہیں جو اصل اور حقیقی انقلاب لا سکتے ہیں۔ میانمار کے حالات میں ترقی پذیر اور پِسے ہوئے طبقاتی معاشروں کے لیے سوچنے اور سیکھنے کو بہت کچھ موجود ہے۔ یہ ہوتا ہے اصل انقلاب اور یوں آتی ہے اصل تبدیلی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ