’امداد کم ہونے پر افغانستان نوے کی دہائی کے انتشار میں جا سکتا ہے‘

بیرون ملک سے آنے والی امداد میں کمی کے بعد افغانستان کی تعمیر نو کے لیے امریکہ کے خصوصی انسپکٹر جنرل جان سوپکو کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کے واپس 90 کی دہائی کے حالات کی جانب جانے کا خدشہ ہے۔

جنوری 2014 میں ایک افغان بچی ورلڈ فوڈ پراگرام کی جانب سے ملنے والے ہائی اینرجی بسکٹ کابل میں گھر لے جاتے ہوئے (اے ایف پی)

افغانستان کی تعمیر نو کے لیے امریکہ کے خصوصی انسپکٹر جنرل جان سوپکو نے کہا ہے کہ امریکہ اور دوسرے ملکوں کی جانب سے امداد میں کمی کی صورت میں افغان حکومت ختم ہو سکتی ہے اور ملک 1990 کی دہائی والے انتشار کا شکار ہو جائے گا۔

جان سوپکو کی جانب سے یہ تنبیہ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکہ، روس اور دوسرے ملک تعطل کا شکار افغان مذاکرات کو فوری طور پر شروع کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن کو باقی ماندہ امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کے لیے یکم مئی کی ڈیڈلائن کا سامنا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کو انٹرویو میں سوپکو کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کے بجٹ کا 80 فیصد امریکہ اور دوسرے عالمی ڈونرز فراہم کرتے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو اگر ڈونرز نے فنڈ میں کمی جاری رکھی تو ہم جانتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں افغان حکومت فوری طورپر ختم ہو جائے گی۔‘

سوپکو نے 1979 سے 1989 تک افغانستان پر جاری رہنے والے سابق سوویت یونین کے قبضے کے ختم ہونے اور اس کی جانب سے کابل حکومت کی امداد روکے جانے کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والی لاقانونیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’تاریخ کا اپنے آپ کو دہرانے‘ کا خدشہ ہے۔

اس کے بعد پیدا ہونی والی غیر مستحکم صورت حال نے طالبان کے لیے ملک کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے حالات موزوں بنائے۔ پھر اس گروہ نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ دی جس نے نو گیارہ کے حملوں کی منصوبہ بندی کی۔ ان حملوں کے جواب میں امریکہ کی جانب سے افغانستان میں جنگ کے بعد ہی طالبان کا دور ختم ہوا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالمی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق 2011 میں افغانستان کے لیے عالمی سالانہ ترقیاتی امداد کی مد میں سب سے زیادہ 6.7 ارب ڈالر کے فنڈ دیے جا رہے تھے۔ تاہم 2019 میں یہ امداد کم ہو کر4.2 ارب ڈالرہو گئی۔

سوپکو آج (منگل کو) امریکی ایوان نمائندگان کی نگران اور اصلاح کمیٹی کے سامنے اپنی رپورٹ کے حوالے سے گواہی دیں گے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نومبر میں ہونے والی کانفرنس میں امدادی ملکوں نے شہری امداد کی مد میں ایک سال کے لیے 3.3 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ وعدے کے مطابق سالانہ امداد 2024 تک اسی سطح پر برقرار رہنے کی صورت میں امداد میں 2016 میں کیے گئے وعدوں کے حساب سے 15 فیصد کمی ہو جائے گی۔

 

سوپکو کے مطابق اگر امداد نہ ملی تو افغان حکومت امن معاہدے کی عدم موجودگی میں طالبان اور دوسرے انتہاپسندوں کے خلاف شدید دباؤ کی حالت میں لڑائی جاری رکھے گی۔

سوپکو کا کہنا تھا کہ امن معاہدہ ہو جانے کی صورت میں عالمی بینک کے مطابق افغانستان کو 2024 تک امن برقرار رکھنے کے لیے شہری امداد کی مد میں مزید 5.2 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔

سوپکو کے مطابق طالبان بھی تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان کو غیرملکی امداد کی ضرورت ہے اور امداد کے بغیر حکومت ختم ہو جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا