خیبر میں پہلی بار بدھ مت دور کے سٹوپا کی بحالی پر کام شروع

محکمہ آثار قدیمہ نے ضلع خیبر میں پاک افغان شاہراہ پر واقع ہزاروں سال پرانے شپولا سٹوپا کی بحالی پر کام شروع کیا ہے تاکہ مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل میں محکمہ اثار قدیمہ نے ہزاروں سال پرانے بدھ مت تہذیب کے شپولا سٹوپا کو اس کی اصلی حالت میں بحال کرنے پر کام شروع کردیا ہے۔

محکمہ آثار قدیمہ کے کائٹ پراجیکٹ اور عالمی بینک کے تعاون سے صوبے میں آثارقدیمہ کی بحالی اور تحفظ کے حوالے سے منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت تاریخ میں پہلی بار قبائلی اضلاع میں موجود آثارقدیمہ کی بحالی اور تحفظ پر کام کیا جا رہا ہے۔ نیکی خیل میں پاک افغان شاہراہ پر واقع ہزاروں سال پرانا شپولا سٹوپا بھی اس کا حصہ ہے۔

اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے آرکیالوجسٹ احسان جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شپولا سٹوپا کی کھدائی اور اس کو محفوظ بنانے پر کام شروع ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا مقصد ضلع خیبر میں مذہبی سیاحت کو تقویت دینا ہے۔

شپولا سٹوپا پر کام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس کا سائنسی مطالعہ  کیا جائے گا، اسے مختلف زاویوں سے دیکھا جائے گا تاکہ اس  کے بننے کی تاریخ کا تعین کیا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول: ’ابھی جو ہم اس کو تاریخ دے رہے ہیں وہ دو ہزار سال پرانی ہے مگر کھدائی کے بعد ہمیں صحیح تاریخ کا پتہ چل جائے گا۔‘

 احسان جاوید  نے بتایا کہ اس سٹوپا کی بحالی کا کام  دسمبر 2020میں شروع ہوا، جس کے بعد جنوری میں کھدائی شروع ہوئی جو 10سے15فیصد تک مکمل ہو چکی ہے۔ ’کھدائی کے دوران کچھ اتنے خاص نوادرارت تو نہیں ملے لیکن خراب حالت میں کچھ مجسمے ملے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کھدائی کے دوران زیادہ تر مٹی کے برتنوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مل رہے ہیں جو پرانے وقتوں میں استعمال ہوتے رہے ہیں اور دو مجسمے بھی ملے ہیں جو کافی اچھی حالت میں ہیں، مگر ان کے سر نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم سائٹ ہے کیونکہ یہ مرکزی تجارتی شاہراہ پاک افغان کے اوپر واقع ہے۔

احسان جاوید کا کہنا تھا کہ منصوبہ یہ ہے کہ اس سٹوپا کو دو سال میں بحال کر دیا جائے تاکہ اس کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں سے خیبر کو بھی فائدہ ہو۔

انہوں نے کہا: ’خیبر میں پہلے ایک سروے ہوا تھا جس میں کافی جگہوں کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں ان پر بھی کام ہو۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا