داستانِ کرب وبلا بکھری ہوئی ہے شام میں

لازمی فوجی سروس سے انکار پر بھاری جرمانہ اور بحق سرکار جائیداد ضبطی ایسی سزائیں دے کر بشار حکومت اپنا خالی خزانہ بھرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔

شام کے شمال مغربی شہر ادلب میں کارکن باغیوں کے زیر انتظام علاقے کے ایک چوراہے میں ’دس‘ کا ہندسہ ایک دھائی کی عکاسی کرتا بنا رہے ہیں۔ ساتھ میں شامی حزب اختلاف کا پرچم بنا رہے ہیں 9اے ایف پی)  

 

یہ تحریر آپ یہاں مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں


عرب بہار کی بہت سی کہانیاں یاد کر کے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ناکامی کا احساس پہلے سے زیادہ دامن گیر ہو جاتا ہے۔ عرب بہار مشرق وسطیٰ میں عوامی امنگوں پر پورا اترنے میں ناکام رہی۔

دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ تکلیف دہ اور ہلاکت خیز واقعات رونما ہوئے صدیاں بیت گئیں جبکہ حقیقت میں صرف دس سال پہلے ہی خطے کے عرب دارالحکومتوں میں طوفان بپا ہوا جس نے ناقابل تلافی نقصان اور خون بہایا۔ بہت سے معاصر عرب تجزیہ کار یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کیا ہمارا خطہ عرب بہار کے خیر مقدم کے لیے تیار نہیں تھا، یا پھر یہ بہار بہت دیر سے آئی؟

تادمِ تحریر شام کے اندر مختلف قومیتوں کے درمیان شدید مقابلہ جاری ہے۔ ادلب کا کنڑول باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔ ترکوں نے شمالی شام پر تسلط جما رکھا ہے۔ مشرقی ریجن پر ایران کی پراکسی ملیشیائیں، کرد اور امریکی فورسز قبضے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ شامی سرزمین پر امریکی فوج کی موجودگی کا مقصد داعش کے خلاف جنگ میں مدد اور تہران کو بیروت سے ملانے والے راستوں کی مانیٹرنگ بتایا جاتا ہے۔

 شام کا برائے نام رقبہ بشار الاسد کے زیر نگیں رہ گیا ہے جبکہ دور افتادہ بچے کھچے حصے میں داعش نے اپنی سلطنت قائم کر رکھی ہے۔ ایسے میں گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔ تل ابیب آئے روز شام میں ایرانی ٹھکانوں پر بلاروک فضائی حملے کر رہا ہے۔

شامی انتظامیہ کے پاس مقامی دروز، علوی اور عرب گروپوں کے زیر نگین خال خال علاقے ہی باقی بچے ہیں۔ یہ گروپ اپنی برادری میں ہی گشت کے ذریعے خود کو ’حکمران‘ تصور کرتے ہیں۔ روسی اور ایرانی فوجیں اپنے زیر نگین علاقوں میں کھلے عام کارروائیاں کر گزرتی ہیں اور اسدی فوج ٹک ٹک دیدم ۔۔۔ دم نہ کشیدم کی عملی تفسیر بنے سب دیکھتی رہ جاتی ہے۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے یو این کے ایک اہلکار نے بجا طور پر اس رائے کا اظہار کیا کہ ’ہم شام میں بالکن طرز کی ریاستیں بنتی دیکھ رہے ہیں۔‘

عراق اور لبنان میں ایران نواز ملیشیا کی بیرونی اور داخلی سرحدوں پر اجارہ داری قائم ہے۔ وہی ان سرحدوں کو استعمال کرنے والوں سے ٹول ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیاں وصول کرتے ہیں۔ نیز ہتھیاروں، میزائلوں، منشیات اور دیگر اشیا کی سمگلنگ کی نگرانی بھی انہی سرحدوں پر تعینات ملیشیا اہلکار کرتے ہیں۔ تاجر اور عام شہری بھاری رقوم ادا کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنی چیزیں منتقل کرنے پر مجبور ہیں۔ شام کا داخلی منظر نامہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔

یہ صورت حال نئی جنگ کے بغیر آسانی سے تبدیل نہیں ہو سکتی لیکن اس وقت میدان میں موجود کوئی ایک فریق مکمل کامیابی حاصل  کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ مہذب دنیا کی بڑی اکثریت بشار الاسد کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ یورپی یونین نے بشار الاسد کے خلاف اس وقت تک پابندیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ کر رکھا ہے جب تک وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کرتا۔ امریکہ کا ’سیزر [CAESER] ایکٹ‘ بھی شامی انتظامیہ کی عالمی تنہائی کو اپنی شرائط کی منظوری تک برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔

ایسے میں شامی تنازع کے بڑے فریق جنگ کے نتیجے میں ہونے والی آبادیاتی تبدیلیوں کو مستقل حقیقت تسلیم کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ بشار الاسد اس آبادی سے مستقل بنیادوں پر چھٹکارا حاصل کرنے کے قانونی جواز تلاش کر رہے ہیں جن کی وفاداری کو وہ مشکوک سمجھتے ہیں۔

شام میں منظور کیے جانے والے ایک نئے قانون کے تحت لازمی فوجی سروس سے انکار کرنے والوں کو 8000 ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہو گا یا پھر ان کی جائیداد بحق بشار سرکار ضبط کر لی جائے گی۔ شامی کرنسی کی قدر میں گراوٹ کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اشیا ضروریہ کی قمیتوں میں 230 فی صد اضافے کے بعد عام شہری کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔

ایک اور قانون مجریہ 2018ء شامی حکومت کو بشار الاسد مخالف شہریوں کی جائیداد ضبطی یا مکانات مسماری کا اختیار بھی دیتا ہے۔ شامی حکومت اس قانون کے بموجب حماہ کے نواح میں سینکڑوں زرعی فارم ہاؤسز کو نیلام کر چکی ہے جس کے باعث وہاں بسنے والے ماضی کے خوشحال کسان اب غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔

خالی قومی خزانے والی بشار الاسد حکومت کی چاروں انگلیاں گھی میں ہیں۔ ایک طرف وہ اپنی جائیداد کو قرقی سے بچانے کے لیے بھاری ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں سے فیسیں وصول کر رہی ہے دوسری جانب ٹیکس دینے کی استطاعت نہ رکھنے والوں کی جائیدادیں اپنے وفاداروں میں کوڑیوں کے بھاؤ تقسیم کی جا رہی ہیں۔

ترکی نے شام میں اپنے زیر نگین علاقے میں آبادیاتی اعداد وشمار کو بہتر انداز میں انجینئر کیا ہے۔ کردوں کے ان علاقوں سے فرار کے بعد انقرہ نے اپنے پناہ گزینوں کا بوجھ کچھ اس انداز سے کم کیا ہے کہ ترکی لیرا خرچ کر کے ان علاقوں میں سنی عرب مہاجرین کو لا کر بسایا ہے۔ یہاں ترکی کے بجلی گھروں سے پاور سپلائی مہیا کر کے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ رجب طیب اردوغان اب یہ علاقے خالی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ زمین ہتھیانے کی ایسی کوششوں سے تنازع کا نیا راؤنڈ شروع ہو سکتا ہے کیونکہ بیدخل کیے جانے والے فریق بدلہ لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

بے دخل ہونے والی آبادی میں ترکی کے تعاون سے اخوان المسلمون کے ’ایونجلسٹسوں‘کی پریشان کن سرگرمیوں کے نظریاتی مضمرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ القاعدہ اور داعش کے ہمنوا عناصر کی بھرتی نے صورت حال کو مزید گنجلک بنا رکھا ہے۔ شدید نفسیاتی ٹراما سے گزرنے، تعلیم اور کسی روشن مستقل سے محروم لاکھوں شامی نوجوان انتہا پسندوں اور ریڈیکل عناصر کے لیے تر نوالا ثابت ہو سکتے ہیں۔

چھوٹے سے ملک لبنان میں پندرہ لاکھ شامی پناہ گزین ایک بڑا آبادیاتی اپ سیٹ ہیں۔ لبنان میں پہلے ہی لاکھوں فلسطینی پناہ گزین موجود ہیں، ایسے میں شامیوں کی آمد مشرق وسطیٰ کے پیرس کو پشاور کے نواح میں افغان خیمہ بستی جیسی صورت حال سے دوچار کر سکتی ہے۔ شامی تنازع کے حل میں مزید تاخیر سے انسانی بحران میں اضافے کا قوی امکان ہے۔

دوسری مرتبہ صدارتی انتخاب میں کامیابی کے خواب دیکھنے والے بشار الاسد سے بعض مغربی ملک اب یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ خطے کا یہ مطلق العنان حکمران کسی سیاسی تصفیے کو ماننے کے لیے اپنے رویے میں لچک پیدا کرے، چاہے اس تصفیے میں یو این سکیورٹی کونسل کی قرارداد 2254 میں بیان کردہ تمام مطالبات پورے نہ بھی ہوتے ہوں۔

شامی تنازع روز بروز پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ روسی کامیابی، اگرچہ نامکمل سہی مگر، نوشتہ دیوار ہے۔ ایران ایک مشکل اتحادی ہے جس کی شامی سکیورٹی اور فوجی اداروں میں مداخلت کھلا راز ہے۔ ادھر اسرائیل، شام میں ایرانی موجودگی کے خلاف اپنی جنگ ہر قیمت پر جیتنا چاہتا ہے۔ روسی صدر، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو اپنا جگری دوست قرار دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شامی تنازع کے حل کی خاطر آستانہ میں شروع ہونے والے مذاکرات کے آغاز سے ہی روس اور ایران کی طرح ترکی کو ایک فریق تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ ترکی نے بالآخر اپنی کوششوں سے مذاکرات کی میز پر اپنی کرسی بک کرانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

روس کی شام میں کامیابی ادھوری ہے کیونکہ ماسکو، شام میں تعمیر نو کے عمل کی قیادت سے قاصر ہے اور نہ ہی وہ شامی حکومت کی عرب دنیا [یعنی عرب لیگ] اور بین الاقوامی برادری میں شمولیت کے سلسلے میں کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

ایک طرف نئی امریکی انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں اپنا مقام متعین کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی دکھائی دیتی ہے اور دوسری جانب روسی وزیر خارجہ سرگے لاروف نے سعودی عرب سمیت خلیجی ملکوں متحدہ عرب امارات، قطر کا دورہ کیا۔ آستانہ میں جاری مذاکرات کے ساتھ دوحہ میں ہونے والا روس، قطر اور ترکی پر مشتمل سہہ فریقی اجلاس بھی شام کے تنازع کے سیاسی حل کی ایک حوصلہ افزا متوازی کوشش ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ روس، لیبیا، افغانستان اور شام میں مصروف ہونے کی وجہ سے شام کا بحران اکیلے حل نہیں کروا سکتا۔ اسے خلیجی ریاستوں اور امریکی تعاون کی ضرورت ہے۔ شامی حکومت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ وہ موجودہ حقیقت کو اس وقت تک تبدیل نہیں کر سکتی جب تک وہ عربوں کو اپنی عرب لیگ میں واپسی کے لیے قائل نہ کر لے۔

شام میں روس کے قدم اپنی جگہ مضبوط سہی لیکن ماسکو اکیلا شامی بحران سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ شام کو حالیہ تباہی اور معاشی بحران سے نکالنے کے لیے روس کا تعاون ضروری ہے۔ پناہ گزینوں کی واپسی اور تعمیر نو کا مرحلہ بھی ماسکو کی شراکت اور تعاون کے بغیر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس ساری صورت حال میں امریکہ، یورپ، خلیجی ریاستوں، ترکی اور ایران کی شراکت سے بھی انکار ممکن نہیں۔

روس اور شام جانتے ہیں کہ جو بائیڈن انتظامیہ فی الوقت ایران کے ساتھ جوہری معاہدے اور چین کی روز افزوں معاشی ترقی کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ، روس کو شام میں کامیابی بغیر کسی قیمت کے ہر گز حاصل نہیں کرنے دے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ