پشاور بی آر ٹی: مسافروں کی تعداد حکومتی اندازے سے کم کیوں؟

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے فلیگ شپ منصوبے بی آر ٹی میں گذشتہ چھ ماہ کے دوران اندازے سے تین گنا کم تعداد میں مسافروں نے سفر کیا۔

حکومت کا اندازہ تھا کہ اگر تین لاکھ 60 ہزار سے زائد مسافر روزانہ سفر کریں گے تو مستقبل میں اس منصوبے کو چلانے کے لیے حکومت کو سبسڈی نہیں دینا پڑے گی

خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت کے فلیگ شپ منصوبے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) میں اندازے سے تین گنا کم تعداد میں مسافروں نے سفر کیا ہے۔

تقریباً 70 ارب روپے مالیت سے شروع ہونے والے اس منصوبے کے حوالے سے صوبائی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس میں روزانہ تین لاکھ 60 ہزار سے زائد مسافر سفر کریں گے۔

تاہم بی آر ٹی چلانے والی کمپنی ٹرانس پشاور کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ چھ مہینوں میں روزانہ اوسطاً ایک لاکھ 38 ہزار مسافروں نے جبکہ مجموعی طور پر دو کروڑ 50 لاکھ سے زائد افراد نے سفر کیا۔

حکومت کا اندازہ تھا کہ اگر تین لاکھ 60 ہزار سے زائد مسافر روزانہ سفر کریں گے تو مستقبل میں اس منصوبے کو چلانے کے لیے حکومت کو سبسڈی نہیں دینا پڑے گی۔

گذشتہ سال اگست میں انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ گفتگو میں صوبائی مشیر اطلاعات کامران خان بنگش نے بتایا تھا کہ اگر ان کے اندازے درست ثابت ہوئے تو کرایوں کی مد میں انہیں وہی آمدنی حاصل ہوگی جس کی انہیں توقع ہے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ اس منصوبے سے منسلک پارکنگ پلازے کو دسمبر 2020 تک مکمل کر لے تاکہ اس سے ملنے والی آمدنی سے منصوبہ چل سکے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق بی آر ٹی چلانے کے بعد اس کے آپریشن اور مینٹیننس کے لیے سالانہ تقریباً پانچ ارب روپے درکار ہوں گے، جن میں سالانہ تین فیصد اضافہ ہوگا۔

دستاویز کے مطابق ان اخراجات میں بی آر ٹی کو چلانے والی کمپنی ٹرانس پشاور کے خرچے، ڈرائیوروں کی تنخواہیں، گاڑیوں کی مینٹیننس، کرایوں کے سسٹم یعنی ٹکٹنگ مشینز وغیرہ کے اخراجات اور سٹیشنز کی صفائی شامل ہے۔

آپریٹنگ اخراجات کے علاوہ گاڑیوں کے تیل کا خرچہ 78 روپے فی کلومیٹر اور ڈپو سے لے کر سٹیشن تک ٹکٹنگ عملے سے متعلق اخراجات تقریباً 48 روپے فی کلومیٹر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لبریکینٹ، فلٹرز اور ٹائرز کا تخمینہ فی کلومیٹر تین روپے لگایا گیا ہے اور اسی طرح تقریباً تین روپے فی کلومیٹر کا خرچہ دیگر اخراجات میں شامل ہے۔

دستاویزات کے مطابق کل ملا کر یہ اخراجات سالانہ پانچ ارب روپے سالانہ سے زائد بنتے ہیں، جن میں سالانہ تین فیصد سے زیادہ اضافہ بھی ہوگا۔

ماضی میں صوبائی حکومت نے بارہا کہا تھا کہ پشاور بی آر ٹی منصوبہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بننے والے ایسے ہی بس منصوبوں سے یوں مختلف ہوگا کہ یہ منصوبہ خود آمدنی پیدا کر کے اپنے خرچے برداشت کرے گا اور حکومت کو سبسڈی نہیں دینا پڑے گی بلکہ اسے سالانہ چھ ارب روپے کی آمدنی ہو گی۔

تاہم چھ مہینوں کے بعد مسافروں کی تعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی اندازے پورے نہیں ہوئے۔ اس حوالے سے ٹرانس پشاور کے ترجمان محمد عمیر نے بتایا کہ مسافروں کی تعداد میں کمی کا سب سے بڑا عنصر کرونا (کورونا) وائرس ہے۔

انھوں نے بتایا کہ پچھلے چھ مہینوں میں کافی عرصہ تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ سرکاری دفاتر میں عملے کی تعداد 50 فیصد کم رہی، جس کا اثر مسافروں کی تعداد پر بھی پڑا۔ تاہم عمیر پراعتماد ہیں کہ گذشتہ چھ مہینوں میں اس منصوبے میں دیگر شہروں کی نسبت زیادہ مسافر سفر کر چکے ہیں۔

عمیر سے جب پوچھا گیا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو بی آرٹی کا سالانہ خرچہ کس طرح پورا ہوگا؟ تو انھوں نے بتایا کہ ٹکٹوں کی فروخت کے علاوہ بھی بی آرٹی کی آمدنی کے مختلف ذرائع ہیں۔

’ہماری کوشش ہے کہ اس منصوبے میں شامل دکانیں، پارکنگ پلازے اور سٹیشنز پر اشتہارات کی آمدنی سے منصوبے کا سالانہ خرچہ پورا ہو سکے۔ اگلے چھ مہینوں میں عوام بہت تبدیلیاں دیکھیں گے اور ہم پرامید ہیں کہ آمدنی بڑھے گی۔‘

تاہم منصوبہ شروع ہونے کے چھ مہینے گزرنے کے باوجود اس میں شامل دکانیں مکمل ہوئیں اور نہ پلازے۔ سبسڈی کے حوالے سے کامران بنگش نے گذشتہ سال انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ابھی تک حکومت کا کوئی ایسا پلان نہیں کہ اس منصوبے پر سبسڈی دیں کیونکہ ہم نے اس کا فنانشل تجزیہ کیا ہے اور امید ہے ہمیں سبسڈی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

صوبائی مشیر اطلاعات کامران بنگش نے مسافروں کے بی آر ٹی کو کم استعمال کرنے کی وجوہات میں بتایا کہ پہلے تو سروس کے آغاز پر پورا مہینہ بسوں میں تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے سروس متاثر رہی جبکہ دوسری بڑی وجہ کرونا وبا تھی۔

’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری صرف 60 فیصد بسیں زیر استعمال ہیں جبکہ 40 فیصد بسیں ابھی آنا ہے۔‘

گذشتہ چھ ماہ میں مسافروں کی تعداد سے مطمئن بنگش نے بتایا کہ جب باقی بسیں آ گئیں اور پارکنگ پلازہ بن گئے تو امید ہے کہ مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

پشاور میں روزانہ کتنے لوگ سفر کرتے ہیں؟

ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازے کے مطابق پشاور میں روزانہ تقریباً سات لکھ 92 ہزار سے زائد لوگ مختلف سفری سہولیات استعمال کرتے ہیں۔

ان مسافروں میں سب سے زیادہ دو لاکھ 36 ہزار لوگ منی بسوں ، دو لاکھ تین ہزار سوزوکی پک اپس اور 87 ہزار لوگ موٹر کاروں میں سفر کرتے ہیں۔ 

اسی طرح ویگنوں میں 60 ہزار، ٹیکسیوں میں 49 ہزار جبکہ رکشوں میں تقریباً 82 ہزار لوگ روزانہ سفر کرتے ہیں۔

اس سروے کے مطابق یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ پشاور میں چلنے والی منی بسوں اور ویگنوں کے 100 فیصد مسافر بی آر ٹی میں منتقل ہو جائیں گے جبکہ رکشہ، سوزوکی پک اپ اور بڑے سائز کی پرانی بسوں میں سفر کرنے والے 50 فیصد تک مسافر بی آرٹی سے استفادہ کریں گے۔

سروے کے مطابق ٹیکسی میں سفر کرنے والے مسافروں میں سے 25 فیصد ، پک اپ ٹرک کے 50 فیصد ، موٹرکار میں سفر کرنے والوں میں سات فیصد اور موٹر سائیکل پر سفر کرنے والے روزانہ 26 ہزار مسافروں میں سے تقریباً سات فیصد بی آر ٹی میں سفر کرنا شروع کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان