بلوچستان کے پہاڑی سلسلے تکتو میں مارخور کا غیر قانونی شکار

ماخور کے شکار کی ایک ویڈیو سامنے آنے کے بعد پشین کے پہاڑی سلسلے میں غیرقانونی شکار کا معاملہ منظر عام پر آیا ہے۔

محکمہ وائلڈ لائف کے اعداد و شمار کے مطابق تکتو کے پہاڑی سلسلے میں اس وقت تقریباً 800 سے زائد مارخور  ہیں (محکمہ جنگلی حیات)

حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک شخص پہاڑی علاقے میں ایک مارخور کا بندوق سے شکار کرتا اور پھر زخمی مارخور کے قریب جا کر اس کے سینگ پکڑ کر ویڈیو کے لیے پوز بناتا ہے۔ 

فیس بک پر یہ ویڈیو پوسٹ کرنے والے اس شخص کی شناخت صدام ولد بور محمد سے ہوئی ہے جو کلی قاسم تحصیل بوستان خانوزئی ضلع پشین کا رہائشی ہے۔ 

علاقے کے مقامی لوگوں میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مذکورہ شخص اور کچھ دوسرے لوگ کئی سالوں سے مارخور کا غیرقانونی شکار کررہے ہیں۔   

ان کا کہنا تھا ناصرف یہ لوگ غیر قانونی شکار میں ملوث ہیں بلکہ یہ زندہ مارخور بھی پکڑ کر ایک سے دو لاکھ روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ 

یہ علاقہ کوہ تکتو کے پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے جو کوئٹہ، پشین اور زیارت کے اضلاع سے گزرتا ہے۔ 

مقامی افراد کے مطابق علاقے میں مارخور کے شکار پر پابندی عائد ہے لیکن کچھ لوگ شکار بھی کر رہے ہیں اور مارخور کا غیر قانونی کاروبار بھی جاری ہے۔

 

This Markhor Tropy was Hunted by me.

Posted by Sadamo Kakar on Sunday, March 21, 2021

محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کے مطابق ایک مقدمے میں صدام نامی شخص اشتہاری بھی ہے۔  

انڈپینڈنٹ اردو نے صدام سے بات کی تو انہوں نے ویڈیو اپ لوڈ کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا اب انہوں نے شکار کرنا چھوڑ دیا ہے۔ 

چیف کنزویٹر وائلڈ لائف بلوچستان شریف الدین نے تصدیق کی کہ مارخور کے شکار کی ویڈیو ان تک بھی پہنچی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ پرانی ویڈیو ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ وہ مارخور کا غیر قانونی شکار کرکے اس کی تصویر یا ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ضلع پشین میں چند لوگ ناصرف مارخور کا غیر قانونی شکار کرتے ہیں بلکہ ان کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کے خلاف وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت پہلے بھی کارروائی ہوچکی ہے۔ 

شریف الدین کے مطابق تکتو پہاڑی پر شکار کرنے والے ایک شخص اظہار خان بھی ہیں، جن کے خلاف پہلے بھی کارروائی کی گئی اور باقاعدہ مقدمہ درج ہوا۔

تاہم وہ اس بات کو مسترد کرتے ہیں کہ تکتو کے پہاڑی سلسلے میں غیر قانونی شکار سے مارخور کی تعداد کم ہو رہی ہے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ عالمی اداروں کی رپورٹ میں مارخوروں کی تعداد میں اضافہ بتایا گیا ہے، تاہم انہوں نے کسی ایسے عالمی ادارے کا نام نہیں بتایا۔ 

محکمہ وائلڈ لائف کے اعداد و شمار کے مطابق تکتو کے پہاڑی سلسلے میں اس وقت تقریباً 800 سے زائد مارخور پائے جاتے ہیں۔ 

شریف الدین نے بتایا کہ جب انہوں نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالا تھا تو اس وقت یہاں پر مارخوروں کی تعداد 35 کے قریب تھی، جس میں اب خاصا اضافہ ہوا ہے۔ 

’یہاں مارخور کے شکار پر تو پابندی ہے تاہم بعض لوگ چوری چھپے یہ کام کرتے ہیں، جن کی روک تھام کے لیے ہمارے لوگ کام کررہے ہیں۔‘  

وہ مزید کہتے ہیں کہ علاقے میں 18 گریڈ کا ایک افسر بھی مقرر کیا گیا ہے، تمام دوسرے ملازمین بھی اسی علاقے کے ہیں۔ 

شریف کے بقول: ’اب چونکہ یہ سب ایک قبیلے کے لوگ ہیں تو ان میں آپس کی چپقلش بھی رہتی ہے اور یہ ایک دوسرے پر الزامات بھی عائد کرتے رہتے ہیں۔‘

انہوں نے اعتراف کیا کہ علاقے میں چند ایک ایسے شکاری بھی ہیں جو پولیس میں ملازمت کرتے ہیں اور مارخوروں کو شکار کرکے ان کی تصویریں اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں۔ 

شریف نے بتایا کہ چونکہ وائلڈ لائف کا ایکٹ موثر قانون ہے اور بلوچستان ہائی کورٹ کے بھی اس حوالے سے سخت احکامات موجود ہیں اس لیے اگر کسی شخص کو بار بار شکار کرتے ہوئے پکڑا گیا تو اسے نہ صرف عدالت سے سخت سزا ملے گی بلکہ اسے ملازمت سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ 

تکتو کے پہاڑی سلسلے میں مارخور کےعلاوہ سیسی، چکور، بھیڑیے، لومڑی اور دوسرے جانور بھی پائے جاتے ہیں۔  

شریف نے کہا: ’جانوروں کا شکار ایک ظالمانہ کام ہے۔ ہمارے لوگ تو کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے لوگوں کو روکیں تاہم اس میں علاقہ مکین بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں تو ہی ان کا تحفظ ممکن ہوسکتا ہے۔ ‘  

دوسری جانب محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب کسی شکاری کو پکڑا جاتا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات محکمے کے کچھ افسران مقدمے کی رپورٹ میں تاریخ درج نہیں کرتے جس سے چالان جمع کرنے کے بعد عدالت میں ملزمان کو فائدہ ملتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل شدہ ایک ایف آئی آر کی کاپی میں محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے ایک شکاری کو پکڑ کر لیویزکے حوالے کیا۔ ایف آئی آر میں بھی لکھا گیا ہے کہ اظہار نامی شخص محکمہ پولیس کا اہلکار ہے، جسے اس سے پہلے بھی غیر قانونی شکار پر پکڑا گیا اور چالان کاٹا گیا۔ 

محکمہ کے اہلکار رپورٹ میں مزید لکھتے ہیں کہ مذکورہ شخص انہیں دھمکیاں دیتا رہا کہ ’جو کرنا ہے کرلو، میں مارخورکا شکار کرنا نہیں چھوڑوں گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنگلات اور جنگلی حیات کو بچانے کے لیے سال 2000 سے کام کرنے والے محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات بلوچستان کے فضل محمد نے بتایا کہ وہ اور تین دیگر ملازمین محفوظ جانوروں کے تحفظ اور جنگلات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ 

انہوں نے کہا: ’ہم تمام ملازمین شکاریوں کو ناجائز شکار سے روکتے ہیں اور اس دوران ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا بھی رہا۔‘

فضل کے بقول وہ چار ساتھی محکمہ جنگلات میں گیم واچر اور فارسٹ گارڈ کے عہدے پر بھرتی ہوئے۔ اس وقت چاروں کوہ تکتو میں درہ بوستان، وچ شاخ، ژڑی، تمبیل، سپری اور کھائی خم پر ڈیوٹی دیتے ہیں۔  

وہ بتاتے ہیں کہ 2018 میں وہ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے کہ اس دوران انہوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ شکار کررہے ہیں۔ جب انہوں نے ان کو روکنے کی کوشش کی تو وہ بھاگنے لگے۔

جب فضل اور ان کے ساتھیوں نے پیچھا کیا تو شکاریوں نے ان پر فائرنگ کی جس میں ان کا ایک ساتھی محمد رمضان زخمی ہوگیا۔

انہوں نے بتایا: ’ہم نے اس کے بعد ایف آئی آر کاٹی اور چالان جمع کیا لیکن شکاریوں نے ہمارے خلاف الٹا ناجائز کراس ایف آئی آر درج کرائی۔ تین سال کیس چلتا رہا۔ بعد میں ملزمان بری ہوگئے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات