سندھ: ایچ آئی وی سے متاثر تین ہزار مریض علاج کے بجائے لاپتہ

صوبہ سندھ کے صوبائی محکمہ صحت کے مطابق 162 بچوں اور 3118 بالغان سمیت 3280 افراد محکمے کی پہنچ سے دور ہوکر لاپتہ ہوگئے ہیں۔

محکمہ صحت کے مطابق سکرینگ کے بعد 162 بچوں اور 3118 بالغان سمیت 3280 افراد، جن کے ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے تھے (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے صوبائی محکمہ صحت نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ صوبے میں ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ تین ہزار سے زائد مریض لا پتہ ہو گئے ہیں۔

محکمہ صحت کے مطابق سکرینگ کے بعد 162 بچوں اور 3118 بالغان سمیت 3280 افراد، جن کے ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے تھے وہ محکمے کے مراکز میں رجسٹریشن کروا کر علاج کرانے کے بجائے لاپتہ ہو گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سندھ میں 1649 بچوں سمیت کل 12 ہزار 880 افراد ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہیں، جن میں سات ہزار 804 مریض محکمے کے پاس رجسٹرڈ ہیں اور اپنا علاج کرا رہے ہیں، جب کہ صوبے میں اب تک 188 بچوں سمیت 1827 افراد ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد مختلف پیچیدگیوں کے باعث انتقال کرگئے ہیں۔ 

محکمے کی رپورٹ کے مطابق 162 بچوں اور 3118 بالغان سمیت 3280 افراد محکمے کی پہنچ سے دور ہوکر لاپتہ ہوگئے ہیں۔ ایچ آئی وی پازیٹو یہ افراد صوبے بھر کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔

 محکمہ ایچ آئی وی، ایڈز کنٹرول سندھ کے کمیونیکل ڈیزیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر ثاقب علی شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ایچ آئی وی سے متاثر 3280 افراد لاپتہ ہیں اور محکمہ ان افراد کو تاحال تلاش نہیں کرسکا ہے۔

ثاقب علی شیخ کے مطابق ایچ آئی وی مثبت آنے والے افراد کی ان کے محکمے کی جانب سے گروہ بندی کی جاتی ہے۔ ان میں ہم جنس پرست، ٹرانس جینڈر، خواتین سیکس ورکر اور سرنج کے ذریعے ڈرگ استعمال کرنے والے گروہ شامل ہیں جبکہ باقی افراد کو عام آبادی والے گروپ میں رکھا جاتا ہے۔

ان کے مطابق ’ایچ آئی مثبت آنے کے بعد کچھ افراد کا اس طرح لاپتہ ہو جانا کوئی نئی بات نہیں۔ ساری دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ کسی اور جگہ چلے گئے ہوں یا جیسے جیل میں جن قیدیوں کا ٹیسٹ مثبت آیا، بعد میں وہ رہا ہوگئے اور ان کے بارے میں نہیں پتہ کہ وہ کہاں ہیں۔ مگر ہمارا محکمہ انھیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پازیٹو کیسوں کی لسٹ میں یہ چلتا رہتا ہے، ہم کچھ لاپتہ افراد کو تلاش کرلیں گے تو نئے کیسز میں کچھ افراد لاپتہ ہو جائیں گے۔ یہ لاپتہ ایچ آئی وی پازیٹو مریض جب لاپتہ ہو جاتے ہیں تو عوام الناس کے لیے خطرے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ہم جنس پرست، ٹرانس جینڈر، خواتین سیکس ورکر اور سرنج کے ذریعے ڈرگ استعمال کرنے والے ایچ آئی مریضوں کے لیے ان کی کمیونٹی تنظمیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور جلد ان کا پتہ لگالیا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محکمہ ایچ آئی وی، ایڈز کنٹرول سندھ کی جانب سے صوبے میں آیچ آئی وی وائرس کی تشخیص اور مثبت آنے والے مریضوں کو مستقل مفت علاج مہیا کرنے کے لیے 13 مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ یہ مراکز کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، رتوڈیرو ، سیہون، میرپورخاص اور نواب شاہ میں واقع ہیں۔

ثاقب علی شیخ کے مطابق کے ان مراکز پر ایچ آئی وی پازیٹو حاملہ خواتین کا علاج کیا جاتا ہے تاکہ وہ ایک صحت مند اور ایچ آئی وی نیگیٹو بچے کو جنم دے سکیں۔ ثاقب شیخ کہتے ہیں کہ 'اب تک ہمارے مراکز پر ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ کئی حاملہ خواتین ایچ آئی وی نیگیٹو بچوں کو جنم دے چکیں ہیں'۔

اس کے علاوہ محکمے کی جانب سے مختف گروہوں کی اپنی سماجی تنظیموں کے ساتھ کام کیا جاتا۔

 حکام کے مطابق ہم جنس پرست، ٹرانس جینڈر، خواتین سیکس ورکر اور سرنج کے ذریعے ڈرگ استعمال کرنے والے افراد کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیموں کے ساتھ کام اس لیے کیا جاتا ہے کہ ان افراد میں ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

یہ سماجی تنظمیں سوشل موبلائیزر رکھتی ہیں جو اپنی کمیونٹی میں جاکر پہلے تو ان افراد کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ مراکز میں آکر اپنی سکریننگ کرایں اور سکریننگ کے بعد اگر کسی فرد میں ایچ آئی وی مثبت آجاتا ہے تو انھیں اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ خود کو مراکز پر رجسٹر کراکے اپنا علاج شروع کروایں۔ جس کے بعد ہر دوسرے یا تیسرے مہینے مرکز جا کر اپنا چیک اپ کرانے کے ساتھ مفت ادویات بھی لیتے رہیں۔

ثاقب علی شیخ کے مطابق 'اگر کسی فرد کا ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آجائے تو انھیں ساری زندگی مخصوص ادویات لینی پڑتی ہیں تاکہ ان کے جسم میں موجود وائرس کنٹرول میں رہے اور وہ ایچ آئی وی سے ایڈز میں نہ تبدیل ہوجائے۔ یہ ادویات کافی مہنگی ہوتی ہیں، مگر ہمارے مراکز پر یہ بالکل مفت دی جاتیں ہیں'۔

محکمہ ایچ آئی وی، ایڈز کنٹرول سندھ کی جانب سے کراچی میں ٹرانس جینڈر یا خواجہ سرا کمیونٹی میں کام کرنے لیے خواجہ سراؤں کی تنظیم جینڈر ایکٹیو الائنس کے ساتھ شراکت کی گئی ہے۔

جینڈر ایکٹیو الائنس کی سربراہ بندیا رانا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایچ آئی وی مثبت آنے کے بعد کوئی خواجہ سرا محکمے کی پہنچ سے دور ہوکر لاپتہ ہوجائے تو اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جس میں بڑی وجہ خواجہ سراؤں کے پاس علاج مراکز تک جانے کے پیسے نہ ہونا بھی ہوسکتی ہے۔

'ان کا کہنا ہے کہ 'کراچی بہت بڑا شہر ہے اور اس شہر میں پاکستان بھر سے خواجہ سرا آتے ہیں۔ اب ان میں سے اگر کسی خواجہ سرا کا ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آیا اور اس کے بعد وہ کراچی سے اپنے آبائی شہر کوئٹہ، لاہور، ملتان، اسلام آباد یا پشاور چلاگیا، تو اس طرح محکمے کو لگتا ہے کہ وہ لاپتہ ہوگئے ہیں، مگر شاید وہ اپنے شہر میں ادویات لے رہے ہوں۔'

ان کے مطابق اس خواجہ سرا ایک غریب کیمونٹی ہے۔ ان میں سے کئی خواجہ سرا علاج کے مراکز تک پیسے نہ ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکتے۔ محکمہ صرف ادویات مہیا کرتا ہے۔ میرے خیال میں اگر سفری خرچے کے ساتھ انھیں کچھ رقم دی جائے تو ایچ آئی وی پازیٹو خواجہ سرا واپس آسکتے ہیں'۔

اس حوالے سے ثاقب علی شیخ کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے پاس علاج مراکز پر آکر مفت ادویات لینے کا خرچہ نہیں ہے تو وہ مراکز کو اپنی اس مشکل سے آگاہ کریں تو ان کی مدد کی جاسکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان