بھارت کی مغربی ریاست گجرات میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے اسمبلی سے متنازعہ ’فریڈم آف ریلیجن بل‘ المعروف ’لو جہاد‘ بل منظور کروا لیا ہے۔
جمعرات کو گجرات اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس کے درمیان منظور کروائے جانے والے اس متنازع بل کے تحت جبری شادی یا شادی کے ذریعے دھوکہ دہی سے مذہب تبدیل کرنے والوں کو قید اور جرمانے کی سخت سزائیں دی جائیں گی۔
اگرچہ مذکورہ بل میں ’لو جہاد‘ کی اصلاح کا استعمال نہیں کیا گیا ہے لیکن اسے ’پیش اور منظور‘ کرنے کا ظاہری مقصد مسلمانوں کی اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں یا خواتین سے شادیاں روکنا ہے۔
اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے بعد گجرات بھارت کی ایسی تیسری ریاست ہے، جس نے ’لو جہاد‘ کے خلاف قوانین بنائے ہیں۔ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔
گجرات بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست ہے اور وہ یہاں وزیراعلیٰ کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
’لو جہاد‘ قوانین کے مطابق ’جبری شادی‘ یا ’شادی کے ذریعے دھوکہ دہی سے مذہب تبدیل کرنے‘ کا جرم ثابت ہونے پر مجرم کو تین سے 10 سال جیل میں گزارنے ہوں گے اور پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
کانگریس کے رکن اسمبلی عمران یوسف بھائی کھیڑا والا نے مذکورہ بل کی کاپی کو ایوان میں پھاڑ دیا جبکہ پارٹی کے ایک اور رکن غیاث الدین شیخ نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس 100 ایسی مسلم لڑکیوں کی فہرست ہے، جنہوں نے گذشتہ ایک سال کے دوران ہندو لڑکوں سے شادی کی اور اپنا مذہب تبدیل کیا۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے اس بل میں جان بوجھ کر ’لو جہاد‘ کی اصطلاح کا استعمال نہیں کیا اور وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ہر چھ ماہ بعد اس طرح کے شگوفے چھوڑتی رہتی ہے۔
غیاث الدین شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ایسے قوانین لانا بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’جہاں جہاں ان کی حکومت ہے، وہاں یہ لوگ ایسی چیزیں کرتے ہیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ بھی جا چکا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ سے کیا فیصلہ آتا ہے۔‘
گجرات کے وزیر مملکت برائے امور داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ نے اسمبلی میں ’فریڈم آف ریلیجن بل‘ بل پیش کرنے کے دوران کہا: ’دھوکہ دہی سے انجام دی جانے والی بین المذاہب شادی ایک بالغ لڑکی کا بنیادی حق تصور نہیں کیا جا سکتا اور ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جو تبدیلی مذہب کے ذریعے اسلام پھیلانے کی ذہنیت رکھتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھارت کے خبر رساں ادارے یو این آئی کے مطابق جڈیجہ نے اپنے خطاب میں ’لو جہاد‘ پر تفصیل سے گفتگو کی اور کہا کہ اس طرح کا قانون بہت سی ریاستوں اور دیگر ممالک میں بھی موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’ہندو معاشرے میں بیٹیوں کو کلیجے کا ایک ٹکڑا سمجھا جاتا ہے لیکن انہیں جہادیوں کے ہاتھوں میں نہیں جانے دیا جا سکتا۔ نام بدل کر ہندو لڑکیوں کو محبت اور شادی کے جال میں پھنسا کر مذہب تبدیل کرنے والے جہادی عناصر سے سختی سے نمٹا جانا چاہیے۔ ریاستی حکومت اس رجحان کو روکنے کے لیے یہ قانون لا رہی ہے۔‘
چرچ آف کیرالہ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ مذہب کی تبدیلی کے بعد ایسی خواتین کو دہشت گردی کے رجحانات کے لیے غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
وزیر مملکت برائے داخلہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ میانمار، نیپال، سری لنکا اور پاکستان میں ایسے قوانین موجود ہیں جن میں طرح طرح کی سزا کے الزامات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کا ماننا ہے کہ دھوکہ دہی کسی کا بنیادی حق نہیں بن سکتی اور نام چھپا کر شادی انجام دینا دھوکہ دہی ہے۔
دوسری جانب حزب اختلاف کے لیڈر پریش دھنانی نے کہا کہ اس بل میں ’لو جہاد‘ کی اصطلاح استعمال نہ کرکے گجرات کے لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔
’مسلمان زبردستی شادی نہیں کرتے‘
گجرات ہائی کورٹ کے وکیل اور سماجی کارکن ایڈووکیٹ خالد شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بی جے پی، آر ایس ایس اور ایسی دوسری جماعتیں یہ متنازع قوانین محض اپنی سیاست چمکانے کے لیے لاتی ہیں۔
خالد شیخ کے مطابق: ’میں بی جے پی، آر ایس ایس اور پوری بٹالین کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ پورے بھارت میں مجھے کسی ایسی جگہ کا نام بتا دیں جہاں مسلمانوں نے جان بوجھ کر یا منصوبہ بندی سے کسی غیر مسلمان لڑکی سے شادی کی ہو۔ اس ملک میں اب تک کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔‘
ایڈووکیٹ خالد شیخ نے بتایا کہ بی جے پی حکومتیں ’لو جہاد‘ کی اصطلاح کا استعمال اس لیے نہیں کرتیں کیونکہ یہ قانون غیر آئینی ہے۔
’بھارتی آئین کی دفعہ 25 کے تحت شہریوں کو مذہبی آزادی دی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت آپ کوئی بھی مذہب اختیار کر سکتے ہیں۔ دھوکہ دہی سے شادی پہلے سے موجود بھارتی قوانین کے تحت ایک جرم ہے اور ان کا ایسے قوانین لانے کا واحد مقصد اپنی سیاست چمکانا ہوتا ہے۔‘
تاہم ایڈووکیٹ خالد کے مطابق بھارت میں انتظامی سطح پر ایسا نظام رائج ہے، جس کے اندر اگر کوئی مسلمان لڑکی ہندو بننا چاہتی ہے تو سبھی محکمے اس کی مدد کے لیے سامنے آ جاتے ہیں، لیکن اگر کوئی ہندو لڑکی مسلمان بننا چاہتی ہے تو سبھی محکمے اس کے خلاف کارروائی کرنے میں لگ جاتے ہیں اور اس کی ضمانت بھی نہیں ہو سکتی۔ ایسے کئی واقعات پیش بھی آ چکے ہیں۔‘