جانور بمقابلہ جانور

جس جانور کو مارا گیا یعنی تیندوا، آئی یو سی این کے مطابق پاکستان میں اس کی نسل کو شدید خطرہ لاحق ہے اور اگر اسی طرح ہی ان کو مارا جاتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب تیندووں کی نسل معدوم ہو جائے۔

(اے ایف پی)

’مارو نہیں، مارو نہیں‘، ایک آواز تھی جو باقی سب آوازوں میں ڈوب گئی۔ یہ آواز اس وقت دی گئی جب ایک جانور دوسرے جانور کو مارنے کے لیے بڑھ رہا تھا۔ نتیجہ ایک جانور زخمی ہوا اور دوسرا جانور مارا گیا۔

میں بات کر رہا ہوں حال ہی میں ایبٹ آباد میں حال ہی میں لوگوں کے ہاتھوں مارے جانے والے تیندوے کی۔ ویڈیو سے یہ بات واضح نہیں ہے کہ کیا انسان جن کو سوشل اینیمل یا سماجی جانور کہا جاتا ہے یہ اس جانور کو پکڑنا چاہتے تھے یا مارنا چاہتے تھے۔ لیکن اس واقعے کے بعد شاید یہ بات کبھی سامنے بھی نہ آئے۔

لیکن دور کھڑا ایک شخص جو لوگوں کو تیندوے کو نہ مارنے کی آواز لگا رہا تھا اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ لوگ اس بیچارے جانور کو مارنے کے لیے ہی جمع ہوئے تھے۔

شاید تیندوا تو اپنی جگہ سمجھ کر ہی آیا ہو لیکن دوسری جانب انسان مصر ہے کہ تیندوا یا دیگر جنگلی جانور ان کے مسکن میں داخل ہوتے ہیں اور انسان حیوان تصادم کا باعث بنتا ہے۔

جس جانور کو مارا گیا یعنی تیندوا، آئی یو سی این کے مطابق پاکستان میں اس کی نسل کو شدید خطرہ لاحق ہے اور اگر اسی طرح ہی ان کو مارا جاتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب تیندووں کی نسل معدوم ہو جائے۔ اس کی نسل کو خطرہ اس لیے ہے کہ اس کے مسکن پر انسان آہستہ آہستہ قبضہ کرتا جا رہا ہے  اور یا تو اس کا شکار کر لیا جاتا ہے یا پھر انسان حیوان تصادم میں مارا جاتا ہے۔

پاکستان میں تیندووں کے مسکن کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ یہ جانور جنگلات میں پایا جاتا ہے اور پاکستان میں جنگلات کی صورتحال یہ ہے کہ ایشیا میں میں سب سے تیزی سے جنگلات میں کمی پاکستان ہی میں واقع ہو رہی ہے۔ ترقی کے نام پر جنگلات کا خاتمہ کیا جا رہا ہے، کہیں سڑک کے نام پر تو کہیں پائپ لائن بچھانے کے نام پر۔ اور جو باقی بچ جاتا ہے تو اس کا خاتمہ ملک کی طاقتور ٹمبر مافیا کر رہی ہے۔

ورلڈ وائلڈ فنڈ کے مطابق تیندوے اپنے ماحولیاتی نظام میں سب سے بڑے شکاری ہیں اور وہ اس نظام کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ اس نظام میں موجود نباتات خور جانوروں کا شکار کر کے ان کی تعداد کو بڑھنے سے روکتے ہیں اور اپنے علاقے میں غیر صحتمند جانوروں کا خاتمہ کرتے ہیں۔ نباتات خور جانوروں کی تعداد کو محدود کرنا جنگل کے لیے بہت اہم ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو جنگلات کی نشوونما بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

ایک وقت تھا جب تیندوے ملک کے مختلف علاقوں میں پائے جاتے تھے لیکن ان کے مسکن اور ان کی تعداد سکڑنے کے باعث اب چند ہی علاقوں میں ان کے آثار پائےجاتے ہیں۔

تیندوے وسیع علاقے میں رہتے ہیں اور وہ اس علاقے کا دفاع کرتے ہیں اور حریف کو اس علاقے میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ ایسے علاقے کو ہوم رینج کہا جاتا ہے۔ تیندوا اپنی ہوم رینج ہی میں ہی رہتا ہے اور شکار کرتا ہے۔ اور اسی ہوم رینج میں نہ صرف ریزرو جنگلات کا علاقہ شامل ہوتا ہے بلکہ گزارا جنگلات بھی شامل ہوتے ہیں۔ 

خیبر پختونخواہ کے وائلڈ لائف محکمے کا کہنا ہے کہ صوبے میں انسان حیوان تصادم کے زیادہ تر واقعات ریزرو جنگلات کے ساتھ ہی واقع گزارا جنگلات میں پیش آتے ہیں۔ ان کے مطابق تقریباً 70 فیصد ایسے واقعات گزارا جنگات میں پیش آئے۔  محکمے کے مطابق گزارا جنگلات تیندووں کے تحفظ کے لیے بہت اہم ہیں تاکہ ان کے پاس خوراک اور ساتھی کی تلاش کے لیے مزید علاقہ میسر ہو۔

پاکستان میں جنگلات کے تین درجات ہیں۔ ریزرو فارسٹ، پروٹیکٹڈ فارسٹ اور ریاستی جنگلات۔ لیکن ایک چوتھی قسم ہوتی ہے جس کو گزارا جنگلات کہا جاتا ہے۔ یہ جنگلات ریزرو جنگلات کے ساتھ ہی واقع ہوتے ہیں اور یہ بھی محکمہ جنگلات کے ماتحت آتے ہیں۔ گزارا جنگلات ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرا، کوہستان اور بٹاگرام میں واقع ہیں۔

تیندووں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ان علاقوں پر سرکاری سطح پر زیادہ توجہ مرکوز کی جائے اور خاص طور پر ان گزارا جنگلات پر جہاں عموماً انسان اور تیندووں کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں تیندووں کی صحیح تعداد، ان کے مسکنوں اور کتنے علاقے پر کتنے تیندوے موجود ہیں کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ یہ وہ معلومات ہیں جو ان کے تحفظ، وسائل کے مختص کرنے، محکمہ جنگلی حیات کے لیے وسائل کا مختص کرنے اور مسکنوں کے تحفظ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ تیندووں کی خوراک کا تجزیہ اور تحفظ کے حوالے سے بھی بہت کم کام کیا گیا جو انسان اور تیندووں کے درمیان تصادم کو اگر ختم نہیں تو کم از کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔

موجودہ تحقیق کے مطابق اسلام آباد کے مارگلہ پہاڑوں، ایوبیہ نیشنل پارک، خیبر پختونخوا کے ریزرو جنگلات، مری اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ان کی موجودگی ہے۔ تاہم سوات اور دیر کے علاقوں میں ان کی موجودگی کے بارے میں تحقیق دانوں اور محکمہ جنگلی حیات متفق نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیبر پختونخوا کے وائلڈ لائف2015  کے قانون کے تحت تیندوے کو تحفظ حاصل ہے۔ اس کو مارنے والے کو کم از کم دس ہزار جرمانہ یا تین ماہ قید یا دونوں اور زیادہ سے زیادہ پینتالیس ہزار جرمانہ یا تین سال قید یا دونوں کی سزا ہے۔ لیکن اس قانون کے ہوتے ہوئے بھی ان کا غیر قانونی شکار جاری ہے جس کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں۔ اس غیر قانونی شکار کے باعث تیندوے مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنا مسکن چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔

 دنیا بھر میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انسان اور حیوان کے درمیان تصادم میں سب سے بڑی وجہ خطرے کا احساس ہے چاہے وہ اصل میں موجود ہو یا نہ ہو۔ خطرے کا احساس زیادہ تر ماضی کے واقعات کے حوالے سے پائے جاتے ہیں اور اسی لیے انسان اس کو خطرہ سمجھتے ہوئے مارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

حکومت کے لیے ضروری ہے کہ ایک تو ان کے مسکن میں انسانی مداخلت کو کم سے کم کرے اور دوسرا لوگوں کو ان کے مسکنوں اور ان سے بچاؤ کے حوالے سے آگاہی دی جائے۔ ان دونوں کاموں کے لیے حکومت کو طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

تیندووں کے مسکن ختم یا کم ہو جانا اور غیر قانونی شکار تیندووں کے تحفظ میں اصل رکاوٹ ہیں لیکن انسان اور تیندووں کے درمیان تصادم بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کی جانب توجہ دینی ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ