جج کے قتل سے اظہار لاتعلقی: ’خواتین، بچوں کو نشانہ نہیں بناتے‘

واقعے میں نامزد ملزم اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی نے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دشمنی میں قبائلی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے وہ خواتین اور بچوں کو کبھی نشانہ نہیں بناتے۔

سپریم کورٹ بار ایسوی ایشن کے صدر لطیف آفریدی (تصویر فیس بک پیج)

صوابی میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج آفتاب آفریدی سمیت چار افراد کے قتل کیس میں دس ملزمان کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے، جن میں سے چار نامعلوم اور چھ ملزمان معلوم ہیں جبکہ ایک نامزد ملزم اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی نے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

ڈی پی او صوابی محمد شعیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’تین اضلاع کی پولیس جس میں اسلام آباد، پشاور اور خیبر پولیس شامل ہے، اس کیس کو دیکھ رہی ہے۔ کل رات سے ضلع خیبر، حیات آباد، بڈھ بیر اور دوسرے علاقوں میں پولیس چھاپے مارتی رہی ہے اور اب تک پانچ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘

واضح رہے کہ ضلع صوابی کے قریب موٹروے پر ہفتے کو انسداد دہشت گردی عدالت سوات کے جج، ان کی اہلیہ، بہو اور پوتے کو ہدف بنا کر قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد مقتولین کے ورثا نے دس افراد کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔

ایف آئی آر میں نامزد ملزم لطیف آفریدی نے میڈیا کو جاری اپنے بیان میں واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دشمنی میں قبائلی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے وہ خواتین اور بچوں کو کبھی نشانہ نہیں بناتے۔

تاہم واقعے کے عینی شاہد اور جج آفتاب آفریدی کے بھتیجے ظہور شہزاد ایڈوکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں لطیف آفریدی پر الزام لگایا کہ وہ ’اس سے قبل بھی خاندانی دشمنی میں خواتین اور بچوں کو نشانہ بنا چکے ہیں اور ہمیشہ لاتعلقی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔‘

ظہور شہزاد نے مزید الزام عائد کیا کہ ’اسامہ بن لادن کی مخبری کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل سمیع اللہ آفریدی، جو مقتول جج کے چچا زاد بھائی تھے، کو بھی لطیف آفریدی نے ہی قتل کروایا تھا۔‘

انہوں نے کہا ’سمیع اللہ آفریدی کو بھی لطیف آفریدی کے ایما پر قتل کیا گیا لیکن لطیف آفریدی ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردوں نے کیا۔ بعد میں جب تفتیش ہوئی تو اس میں یہی لوگ ملوث نکلے تھے۔‘ خیال رہے کہ سمیع آفریدی کے قتل کے بعد طالبان گروپ کے دو دھڑوں نے واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ متعلقہ خاندان کی جانب سے مقتول جج کو کئی بار دھمکیاں بھی ملی تھیں، یہ خاندانی دشمنی پچھلے چھ سال سے چلی آرہی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جج آفتاب آفریدی کے بیٹے عبدالماجد آفریدی نے پولیس کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملزمان دو گاڑیوں میں سوار تھے۔ ایک گاڑی میں لطیف آفریدی کے بیٹے دانش آفریدی، ان کے چچا زاد جمال آفریدی بشمول دو نامعلوم افراد سوار تھے جبکہ دوسری گاڑی میں ملزم عابد اور ملزم شفیق بشمول دو نامعلوم مسلح افراد نے ان کے والد کی گاڑی کو گھیر لیا۔

انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے وقت جیسے ہی مقتول جج کی گاڑی سڑک کے کنارے رکی تو آٹھوں ملزمان نے گاڑی سے اتر کر ان کے والد کی گاڑی پر اندھادھند فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔

مقتول جج ڈیڑھ ماہ قبل سوات میں انسداد دہشت گردی عدالت میں جج مقرر ہوئے تھے۔ اس سے قبل وہ سینیئر سول جج اور ڈسٹرکٹ سیشن جج اور لیبر کورٹ چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔

مرحوم کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ جج آفتاب آفریدی اور ان کے اہل خانہ کی نماز جنازہ پیر کو پشاور میں ادا کی گئی۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں صوابی میں پیش آنے والے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث افراد سے سختی سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان بار کونسل نے ایک اعلامیے میں واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’وکلا برادری کے لیے یہ بات پریشان کن ہے کہ ایک قابل احترام جج کو سفاکانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔‘

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ وکلا برادری کو واقعے پر بہت زیادہ صدمہ ہوا اور پاکستان بار کونسل وفاقی اور صوبائی حکومت سے ملزمان کو فوری گرفتاری کا مطالبہ کرتی ہے۔

اس کے علاوہ کونسل نے حکومت پر زور دیا کہ وہ عدالتی افسران کی مناسب سیکورٹی یقینی بنائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان