جبری مشقت کے خلاف احتجاج کا استعارہ بن جانے والا اقبال مسیح

’اقبال کی کہانی‘ کے نام سے ایک اطالوی رائٹر فرانچیسکو آدمو نے بچوں کے لیے ایک ناول لکھا جس میں اقبال کی زندگی کا سفر کچھ حقائق اور کچھ افسانوی انداز میں اصلی اور تصوراتی کردار کے ساتھ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ 

اٹلی کے سکول میں لگا ہوا اقبال مسیح کا پورٹریٹ (تصویر: عالیہ صلاح الدین)

12 سالہ اقبال مسیح کا قتل مریدکے میں بندوق کی گولی سے ہوا۔ یہ 16 اپریل 1995 اور  ایسٹر کی رات تھی۔ اقبال سائیکل پر مارکیٹ سے واپس آ رہا تھا جب چلتی گاڑی سے ان پر حملہ ہوا۔ آج تک یہ معاملہ زیرِبحث ہے کہ اقبال کو کس نے مارا۔

اقبال مسیح کے قتل کے تین سال بعد ہزاروں میل دور اٹلی کے ایک چھوٹے سے شہر مونزہ میں ایک پرائمری سکول کے طالب علم، ان کے والدین اور اساتذہ نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ان کا سکول اب اقبال مسیح ایلیمنڑی سکول کے نام سے پہچانا جائے گا۔ ان کے سامنے کئی نام رکھے گئے تھے، جن میں سائنس دان بھی تھے اور تاریخی شخصیات بھی، لیکن اقبال مسیح کی کہانی ہر ایک کے دل کو لگی۔

نام طے ہو جانے کے بعد اس وقت کے بچوں نے ایک رسالہ نکالا جس میں انہوں نے اقبال کی زندگی کو تصاویر اور الفاظ کے ذریعے بیان کیا۔ دوسری جماعت کی طرف سے اقبال کے نام یہ خط بھی لکھا گیا:

’پیارے اقبال،

ہم نے تمہاری دکھ بھری کہانی سنی اور اب ہم یہ جان گئے کہ  تم ایک بہادر بچے تھے۔ تم سارے بچوں کے حقوق کے لیے لڑے، لیکن تم بدقسمت بھی تھے۔ ہم تمہیں یاد رکھنے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے سکول کو تمہارا نام دینا چاہتے ہیں۔ ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارا یہ سکول ہر ایک کے لیے امن اور انصاف کا گہوارا ہوگا۔‘

اقبال چار سال کا تھا جب اس نے قالین کی فیکٹری میں کام کرنا شروع کیا۔ اس کے غریب باپ کا معمولی سا قرض اس بچے کی نازک انگلیوں کی مشقت سے اتارا گیا۔ اگلے چھ سال اقبال اپنے جیسے اور بچوں کے ساتھ اپنا بچپن قالین بنانے میں صرف کرتا گیا اور پھر ایک دن وہ اپنی قید سے فرار ہو گیا۔ اس وقت وہ دس سال کا تھا۔

اس کو بی ایل ایل ایف (Bonded Labour Liberation Front) کی تنظیم نے پناہ دی اور ان کے ساتھ اس نے بچوں کی جبری مشقت کے خلاف کئی فورمز پر بات کی۔ وہ امریکہ اور سویڈن تک کانفرنسز میں شریک ہوا اور اسے بین الاقوامی ایوارڈز بھی ملے۔ اقبال ایک چھوٹا سا ہیرو بن گیا۔ چھوٹا سا قد، کمزور جسامت مگر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اور چمکتی ہوئی آنکھیں۔ اقبال آزاد تھا لیکن اس کی یہ آزادی اس سے جلد چھننے والی تھی۔

اٹلی میں کئی سکولوں کا نام اقبال مسیح کے نام پر رکھا گیا ہے، لیکن کہا جاتا ہے کہ مونزہ کا یہ سکول ان سب میں پہلا ہے۔ اس سکول کی پرنسپل اینا کاواناغی  نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اقبال صرف سکول کا نام نہ ہو بلکہ اس کی شناخت بھی ہو۔

ہر صبح 200 بچے اس سکول میں داخل ہوتے ہیں اور سب سے پہلے وہ استقبالیہ پر لگی اقبال مسیح کے خوبصورت پورٹریٹ کو دیکھتے ہیں جو ایک اطالوی آرٹسٹ نے سکول کو تحفے میں پیش کی۔ وہ صرف اقبال کا نام اور چہرہ نہیں پہچانتے بلکہ اس کی زندگی کی کہانی سے بھی واقف ہیں۔ یہی نہیں، ان کو یہ بھی سمجھ ہے کہ ان کا اقبال کی کہانی سے کیا رشتہ ہے۔ اپنے جیسے دوسرے بچوں کی زندگی کی مجبوریاں پہچاننا، ان کے لیے دل میں حساسیت پیدا کرنا، بڑے ہو کر ہمیشہ یاد رکھنا کہ زندگی کے مقاصد اپنے محدود دائرے سے زیادہ وسیع ہیں، یہی سب ان کی تعلیم کا حصہ ہے۔

جب میں یہ سکول دیکھنے گئی تو مجھ سے  تیسری جماعت کی بچیوں نے کہا: ’اقبال ہماری طرح کا ایک بچہ تھا، لیکن اس کے ہاتھوں میں قلم اور پینسل کی بجائے کام کے اوزار تھے۔ وہ قالین بنانے کا کام کرتا تھا اور اس کو کبھی کبھی سخت سزائیں بھی ملتی تھیں۔ اس کی چھوٹی سی انگلیاں زخمی ہوجایا کرتی تھیں۔ اقبال اور اس کے ساتھ کام کرنے والے بچے سکول جانا چاہتے تھے۔ وہ وہ سب کچھ کرنا چاہتے تھے جو ہم روز یہاں سکول میں کرتے ہیں۔‘

’اقبال کی کہانی‘ کے نام سے ایک اطالوی رائٹر فرانچیسکو آدمو نے بچوں کے لیے ایک ناول لکھا جس میں اقبال کی زندگی کا سفر کچھ حقائق اور کچھ افسانوی انداز میں اصلی اور تصوراتی کردار کے ساتھ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔  یہ کتاب جب چھپی تو حیران کن حد تک مقبول ہوگئی اور کئی سکولوں میں پڑھائی جانے لگی۔ اب یہ اٹلی  کی ہر بڑی پبلک لائبریری میں موجود ہے۔

کتاب میں اقبال کو قالین بنانے کی فیکٹری میں جھوٹ بول کر لایا جاتا ہے جہاں اسے قید کر لیا جاتا ہے۔ وہاں کارخانے میں اسے اور بچے بھی ملتے ہیں جن کے والدین فیکٹری کے مالک کے مقروض ہیں۔ وہ سب ساتھ رہتے ہیں، ساتھ ہی کام کرتے ہیں اور شروع کی ہچکچاہٹ کے بعد ان کی دوستی ہو جاتی ہے۔ ان کا ظالم مالک ان کے ساتھ سختیاں کرتا ہے، بچے سہم کر برداشت کر لیتے ہیں لیکن اقبال کی آنکھوں کی چمک ان کو اس بات پر قائل کر دیتی ہے کہ وہ اپنی زندگی بدل سکتے ہیں۔ کتاب  کے ایک حصے میں اقبال ایک فاطمہ نامی بچی کو اپنا رازدار بناتا ہے:

’تم ایک راز رکھ سکتی ہو فاطمہ؟‘ اقبال نے آہستہ سے کہا۔

’کیوں نہیں؟ تم نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے؟‘ فاطمہ بولی۔

’تو پھر تم یہ جان لو کہ ہم ایک دن آزاد ہو جائیں گے۔ یقین کرلو۔‘

’لیکن کیسے اقبال؟ تم ہی نے تو کہا تھا کہ قرض پورا اتارنا ناممکن ہے۔‘

’وہ تو ہے۔ لیکن ہم قرض اتار کر نہیں آزاد ہوں گے۔‘

’پھر؟‘

’ہم یہاں سے بھاگ جائیں گے!‘

’تم پاگل ہو! ‘

اصل زندگی کی مانند کتاب میں بھی اقبال اپنی غلامی سے بھاگ کر آزاد ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اپنی آزادی کے اگلے دو سال دوسرے بچوں کے حقوق اور ان کی آزادی کی جنگ میں گزار دیتا ہے۔ کتاب کے آخر میں بھی اقبال کا انجام حقیقت سے مشابہت رکھتا ہے۔

2015 میں اسی کتاب پر مبنی  بچوں کے لیے ایک اینیمیشن فلم بنی جس کا نام ہے ’اقبال۔ ایک نڈر بچے کی کہانی۔‘ یہ اطالوی اور فرانسیسی پروڈکشن ہے، جسے بنانے میں یونیسیف نے تعاون کیا اور اٹلی کے ریاستی ٹی وی چینل نے اسے ملک بھر میں نشر کیا۔

یہ ایک لاجواب فلم  ہےجو  دل کو چھولیتی ہےاور دیکھنے کے کئی دن بعد تک اس کا اثر قائم رہتا ہے۔لیکن فلم بنانے والوں نے اپنی کہانی کے اختتام میں اقبال کو مرنے نہیں دیا۔  فلم دیکھنے والے بچے کیسے اس ناانصافی کو تسلیم کریں گے کہ ان کا اتنا کم عمر، بہادر ہیرو اس بے دردی سے مارا گیا۔

کبھی کبھار لیاقت جاوید کو بھی اپنے بچوں کے پوچھے ہوئے اسی سوال  سے نمٹنا پڑتا ہے۔  لیاقت منگہ منڈی میں اینٹوں کے بھٹے پر اپنے ابا کے ساتھ جبری مشقت کرتے تھے جب اقبال اپنی رہائی پا کر بی ایل ایل ایف کے دفتر وہاں آیا کرتا تھا۔

وہ بتاتے ہیں: ’اقبال ہمارے بھٹے پر آیا کرتا تھا۔ ہماری لگ بھگ ایک ہی عمر ہوگی۔ مجھے اس سے باتیں کرنا بہت اچھا لگتا تھا۔‘

لیاقت جاوید نے مجھے بتایا: ’اقبال بڑی بڑی باتیں کرتا تھا، اس کے بہت سارے خواب تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ بچے سکول جائیں۔ مزدوری نہ کریں۔ وہ خود بھی پڑھنا چاہتا تھا۔‘

آج بھی لیاقت کو وہ دن یاد ہے جب مینارِ پاکستان کے سائے تلے جبری مشقت اور بچوں کی مزدوری کے خلاف ایک جلسہ ہوا۔ لیاقت اور اس کے دوستوں نے سٹیج پر گانا گایا لیکن جلسے کا اصلی ستارہ اقبال تھا، جس کی جوش بھری تقریر نے لیاقت جیسے دیگر مزدور بچوں پر ایک گہرا اثر چھوڑ دیا۔

لیاقت آج بھی اپنے بچوں کو اقبال کی  برسی پر اس کی قبر پر لے جاتے ہیں، وہاں موم بتیاں اور پھول بھی سجاتے ہیں لیکن اقبال کی موت کن حالات میں واقع ہوئی، یہ سمجھانے کی ان میں ہمت نہیں ہوتی۔

وہ خود  15 سال کے تھے جب اقبال کا قتل ہوا۔ ’اس  وقت اس سانحے کا ہم بچوں پر سب سے بڑا اثر یہ تھا کہ ہم جو پہلے ہی اس قدر خوف میں جیتے تھے، اس خوف میں اضافہ ہوگیا۔ بانڈڈ لیبر میں جو مالک کا خوف ہوتا ہے، وہ ذہنی نشوونما کے آڑے آجاتا ہے۔ ہم ہر وقت خوف زدہ رہتے تھے اور اقبال کی وجہ سے ہماری جو تھوڑی بہت امید جاگی تھی، اس کو اتنا شدید دھچکہ لگا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔‘

خوف اور ڈر اپنی جگہ، لیاقت نے اقبال کے خواب کو اس کے ساتھ دفن نہیں ہونے دیا۔ لیاقت نے دس سال بھٹے پر کام کیا لیکن ساتھ ساتھ سکول جانا نہیں چھوڑا۔  بعد میں انہوں نے فورمن کرسچن کالج  سے  ڈگری بھی حاصل کی جبکہ وہ ان کے گھر سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور آنا جانا آسان نہیں تھا۔

اقبال کے مرنے کے دو سال بعد لیاقت نے میٹرک کا امتحان دیا اور اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے، بھٹے سے جڑے خاندانوں کے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ اس بات کو 25 سال ہونے والے ہیں اور اب تک لیاقت یہی کام کر رہے ہیں۔ ان کی تنظیم بِرک پاکستان (Bric Pakistan)  اب 30 پرائمری سکول، 30 پلے سینٹر اور معذور بچوں کے لیے دیگر سینٹر چلاتی ہے۔ اس وقت لگ بھگ چار ہزار غریب بچے ان سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔

لیکن اس غلامی کی زندگی سے لے کر یہاں تک کا سفر لمبا اور کٹھن تھا۔ 2005 میں لیاقت اس قابل ہوئے کہ انہوں نے اپنے بھٹے کے مالک کو 23 ہزار روپے دے کر اپنے باپ کا 30 سالہ قرضہ ادا کرکے انہیں جبری مشقت سے آزاد کیا۔ آج تک لیاقت کے پاس اس قرضے کی ادائیگی کی رسید موجود ہے۔ کچھ سالوں بعد لیاقت نے اپنے بھائیوں کا بچا ہوا قرضہ  بھی پورا اتار دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب لیاقت جاوید  کے تمام گھر والے اپنے ماضی کی ڈور سے آزاد ہو چکے ہیں لیکن لیاقت نے اپنے بچپن کے ہیرو کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ نہ ہی بھٹے کے بچوں کے لیے اقبال کا خواب ٹوٹنے دیا اور نہ ہی کبھی اقبال کے خاندان سے ناتا توڑا۔

لیاقت جاوید نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا: ’سب سے گہرا دکھ مجھے یہ ہے کہ اقبال مسیح کا نام لینے والے بہت آئے، اس کے نام پر دنیا بھر میں ادارے چلے، اس کو بین الاقوامی عزت ملی، لوگ اس کی دنیا بھر میں مثال دیتے ہیں لیکن آج تک اس کے خاندان کو کسی نے نہیں پوچھا۔‘

’یہ اس معاشرے کی اور اس کے اداروں کی اخلاقی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ یہ دیکھتے کہ اقبال کے گھر والے کتنےمشکل حالات  اور غربت میں زندگی گزار رہے ہیِں۔‘

لیاقت جاوید ہر سال  16 اپریل کو اقبال کے خاندان کے ساتھ مل کر اس کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں۔ آج بھی وہ ساتھ مل کر بیٹھیں گے اور ایک بچے کی چھوٹی سی زندگی کی مرجھاتی ہوئی یادوں میں دوبارہ رنگ بھریں گے۔ جس طرح اقبال کی کہانی کو ہمارے سکولوں میں ہمارے بچوں تک پہنچنا چاہیے تھا، ایسا تو نہیں ہوا، لیکن انہیں یہ جان کر شاید خوشی ہوگی کہ پاکستان سے ہزاروں میل دور اٹلی کے  ایک سکول کے بچے، اقبال کے نام آج بھی یہ  پیغام دیتے ہیں:

’پیارے اقبال، ہم نے تمہاری کہانی سنی۔ تمہاری تصویر دیکھی۔ جیت کا نشان لیے تمہارے اونچے بازو دیکھ کر ہم مسکرائے۔ تمہاری آنکھوں میں سنجیدگی دیکھ کر ہم گھبرائے۔ شکریہ ان ننھی انگلیوں کا جنہوں نے اتنی تھکن اٹھائی۔ شکریہ اس بڑے دل کا جو دنیا کے لیے اتنی بڑی باتیں کر گیا۔ شکریہ اپنی بہادری کا جس کی وجہ سے تم ہمیشہ ہم سب میں زندہ رہو گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین