’میرا رمضان اور نوراتری کامیاب رہا۔ آج مجھے اوپر والے کی طرف سے عیدی مل گئی۔‘
یہ بھارت کی شمال مشرقی ریاست بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کی بیٹی روہنی آچاریہ کی ایک ٹویٹ کا متن ہے، جن کے محبوس والد کو ہفتے کو ساڑھے تین سال کے انتظار کے بعد جھارکھنڈ ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی۔
मेरा रमज़ान और नवरात्र सफ़ल हुआ।
— Rohini Acharya (@RohiniAcharya2) April 17, 2021
आज मुझे ऊपर वाले के तरफ से ईदी मिल गयी #शेर_लालू_आया pic.twitter.com/ECTfPzfs9m
بھارت میں سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت کی جانب سے چارہ کرپشن کے ایک کیس میں مجرم قرار دیے جانے والے لالو پرساد 2018 کے اواخر سے قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
تاہم ہفتے کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ان کو متذکرہ کیس میں ضمانت دے دی جس سے ان کی رہائی کی راہیں ہموار ہو گئی ہیں۔
بھارتی خبر رساں ادارے یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا (یو این آئی) کے مطابق ہفتے کو جسٹس اپریش کمار سنگھ کی عدالت نے تمام فریقین کو سننے کے بعد لالو پرساد کی حراست کی مدت کو کافی سمجھتے ہوئے انہیں ضمانت دے دی۔
خبر کے مطابق عدالتی فیصلے کی کاپی جیل سپرنٹنڈنٹ کو مہیا کرا دی جائے گی۔ رہائی کے عمل میں ایک دو، دن کا وقت لگ سکتا ہے۔
روہنی آچاریہ کا روزے رکھنے کا اعلان
دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ روز اپنی ایک ٹویٹ میں لالو پرساد کی بیٹی روہنی نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنے بیمار والد کی جلد صحت یابی اور انصاف کی فراہمی یا قید سے رہائی کے لیے رمضان کے سبھی روزے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
43 سالہ روہنی نے اپنے بچپن کی ایک تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا: ’کل سے رمضان کا پاک مہینہ شروع ہو رہا ہے۔ اس سال میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ پورے مہینے اپنے پاپا کی صحت یابی اور سلامتی کے لیے روزے رکھوں گی۔
’میں دعا کروں گی کہ پاپا کو جلدی شفا اور انصاف مل سکے۔ اللہ سے ملک میں امن و سکون کے لیے بھی دعا کروں گی۔‘
سنگاپور میں اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ مقیم روہنی کی اس ٹویٹ سے سوشل میڈیا پر موجود 'بھکت' یا ہندو قوم پرست جماعتوں کے حمایتی شدید مشتعل نظر آئے۔
ان میں سے بعض نے اپنی ٹویٹس میں روہنی کا اپنے والد کی رہائی کے لیے روزے رکھنے پر مذاق بھی اڑایا۔
تاہم روہنی نے منفی تبصرہ کرنے والے 'بھکتوں' کے لیے ایک اور ٹویٹ کی، جس میں انہوں نے رمضان کے روزوں پر اعتراض ظاہر کرنے والوں کو نو دنوں تک منائے جانے والے ہندوئوں کے مذہبی تہوار 'چیتی نوراتری' کی مبارک باد پیش کی۔
انہوں نے لکھا: ’ساتھ میں چیتی نوراتری بھی ہے۔ میرے اندر اتنا حوصلہ ہے کہ میں یہ دونوں پاک تہوار سچی لگن اور ہمت کے ساتھ پورا کر سکتی ہوں۔ مجھے کسی زہریلے پرورش کی نفرت آمیز سوچ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ سبھی کو چیتی نوراتری کی بھی نیک خواہشات۔‘
روہنی آچاریہ نے 'بھکتوں' کے منفی تبصروں کے باوجود رمضان کی چاند رات کو ہیش ٹیگ ’رمضان مبارک‘ کا استعمال کرتے ہوئے ایک دعائیہ نظم شیئر کی تھی جس کا متن کچھ یوں ہے:
’سب کی مرادیں پوری کرتا
میری بھی مرادیں سن لے مولا
روزہ ایسی عبادت ہے
سب کی سنتا ہے تو مولا
میرے پاپا کو صحت دے
ہمت اور تو طاقت دے
جو روزہ رکھتا ہے
سنا ہے سب کی سنتا ہے تو مولا‘
بظاہر کسی ’بی جے پی بھکت‘ کی جانب سے چلائے جانے والے ٹوئٹر ہینڈل پر دو سکرین شارٹس شیئر کی گئی ہیں۔
ان سکرین شاٹس میں سے ایک روہنی کا روزہ رکھنے کا اعلان والی ٹویٹ اور دوسری میں کچھ یوں لکھا ہے: ’ان کی ہمدردی صرف مسلموں کے لیے ہے۔ ہندوؤں کے لیے ان کے دل میں کوئی جگہ نہیں۔ جے شری رام۔‘
دپیکا چترویدی نام کے ٹوئٹر ہینڈل سے لکھا گیا تھا: ’لالو یادو کی بیٹی روہنی آچاریہ دنیا سے ان کی رہائی، معاف کریں، جیل سے ان کی رہائی کے لیے رکھیں گی مہینے بھر کا کٹھن روزہ ۔۔۔ پگلے بھائیوں کو کہیں بہار کا اقتدار نہ مل جائے اور والد کے دن غلطی سے بھی نہ سدھر جائیں ۔۔۔ اس بات کا پورا دھیان رکھتے ہوئے اقدام اٹھا رہی ہیں دیدی۔‘
ونود شرما نامی ٹوئٹر ہینڈل سے لکھا گیا: ’اسے کہتے ہیں پوری طرح سے سیکیولر ۔۔۔ لالو یادو کی بیٹی روہنی آچاریہ اپنے والد کی صحت اور جلد جیل سے رہائی کے لیے ایک مہینے کا روزہ رکھے گی۔
’ان کا لگاؤ مسجد اور مزاروں سے ہی ہے، نہیں تو آج سے نوراتری شروع ہو گئی ہے، یہ ماتا رانی کا ورت بھی رکھ سکتی تھی۔‘
بہار میں بی جے پی کے سینیئر لیڈر سشیل کمار مودی نے 'بھکتوں' پر بھی سبقت لیتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ روزے رکھنے سے کچھ ہونے والا نہیں۔ ’آج ضمانت پر رہائی کے لیے ان کے گھر کے جو افراد ورت اور روزہ دونوں رکھنے کی بات کر رہے ہیں وہ دراصل کسی بھی طریقہ عبادت کے تئیں ایماندار نہیں۔
’اس سے کچھ ہونے والا نہیں۔ لالو کا خاندان اقتدار اور املاک کے لیے ایشور اور اللہ کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتا رہا ہے۔‘
سشیل کمار مودی راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس کے تا حیات رکن اور فی الوقت بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا یا راجیہ سبھا کے بھی رکن ہیں۔
لالو پرساد یادو کی جماعت راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) نے سشیل کمار مودی کی ٹویٹ پر تنقید کرتے ہوئے ان پر مذہبی، سماجی اور سیاسی حدود کو توڑنے کا الزام لگایا۔
آر جے ڈی کے ریاستی ترجمان چترنجن گگن نے کہا کہ سشیل مودی اور لالو خاندان کے درمیان سیاسی مخالفت سمجھ آتی ہے، لیکن اگر وہ اس خاندان کے کسی غیر سیاسی فرد کی عبادت اور اس کے مذہبی عقائد پر طنز کرتے ہیں تواس سے ان کی سوچ اور نظریے کو سمجھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سشیل مودی کے لیے مذہب سیاسی تجارت کا ذریعہ ہو سکتا ہے لیکن لوگوں کے لیے یہ ایک طرز زندگی ہے جو ان کے عقیدے سے بھی جڑا ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالانکہ ان کے بیان کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا پھر بھی ان کی ٹویٹ سیاسی اور سماجی حدود کی خلاف ورزی کے ساتھ مذہبی عقائد کو بھی توڑتی ہے۔
بیمار قیدی لالو پرساد یادو
73 سالہ لالو پرساد بھارتی ریاست بہار کی علاقائی سیاسی جماعت راشٹریہ جنتا دل کے صدر ہیں۔ وہ بہار کے سابق وزیر اعلیٰ اور بھارت کے وفاقی وزیر ریلوے رہ چکے ہیں۔
لالو پرساد کو دسمبر 2018 میں گرفتاری کے کچھ ہی دن بعد شدید بیمار ہو جانے کی وجہ سے ریاست جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی میں واقع راجندرا انسٹی آف میڈیکل سائنسز میں داخل کرایا گیا تھا۔
تاہم طبیعت میں کوئی خاص سدھار نہ آنے پر انہیں رواں برس 23 جنوری کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے رانچی سے نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمز) منتقل کیا گیا جہاں وہ ہنوز زیر علاج ہیں۔
لالو پرساد کی طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے وہ اور ان کی بیوی رابڑی دیوی (بہار کی سابق وزیر اعلیٰ) پچھلے کچھ مہینوں سے نئی دہلی میں ہی مقیم ہیں۔
لالو سانس لینے میں تکلیف، گردوں، چہرے کی سوجن اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا ہیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ پچھلے دنوں عدالت میں لالو کے وکیل نے اپنے موکل کی صحت میں تھوڑی بحالی کی اطلاع دی تھی، لیکن اب ان کی طبیعت زیادہ ہی خراب ہے۔
بہار میں راشٹریہ جنتا دل کا الزام تھا کہ بی جے پی حکومت سیاسی انتقام لیتے ہوئے شدید علیل لالو پرساد کو ضمانت پر رہا کرنے میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے۔
بہار میں راشٹریہ جنتا دل مہا گٹھ بندھن کی ایک اہم جماعت ہے۔ یہ مہا گٹھ بندھن آر جے ڈی کے علاوہ کانگریس اور بائیں بازوں کی جماعتوں (سی پی آئی ایم، سی پی آئی اور سی پی آئی ایم ایل) پر مشتمل ہے۔
گذشتہ سال بہار میں منعقدہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی قیادت والے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) نے 243 میں سے 125 نشستیں حاصل کر کے حکومت تشکیل دی تھی۔
مہا گٹھ بندھن نے ان انتخابات میں 110 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس نے حیدرآباد دکن کی سیاسی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (کل ہند مجلس اتحاد المسلمین) پر سیکولر ووٹروں کو تقسیم کر کے بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کی مدد کرنے کے الزامات لگائے تھے۔
روہنی آچاریہ کون ہیں؟
لالو پرساد یادو کی سات بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ ان میں سے سیاست کے میدان میں بیٹی میسا بھارتی اور بیٹے تیج پرتاپ یادو اور تیجسوی یادو سرگرم ہیں۔
روہنی لالو پرساد کی دوسری اولاد اور میسا بھارتی کی چھوٹی بہن ہیں۔
انہوں نے مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جمشید پور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیشے سے ڈاکٹر روہنی لالو پرساد کی ان بیٹیوں میں سے ایک ہے جو سیاست سے دور ہیں لیکن اس کے باوجود وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے خاندان سے متعلق تمام معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں۔
پھر چاہے وہ بڑے بھائی تیج پرتاپ کی طلاق کا معاملہ ہو یا پھر والد کی صحت سے متعلق معاملات ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ جب 2017 میں تیجسوی یادو پر بدعنوانی کا الزام لگا اور انہیں نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی سے برطرف کرنے کی بحث چھڑی تو سیاسی حلقوں میں روہنی کو نائب وزیر اعلیٰ بنائے جانے کی چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں۔
ان کا نام آگے آنے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ان پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں۔ یہ ساری چہ میگوئیاں وقت کے ساتھ ہی ختم ہو گئیں۔
2002 میں روہنی آچاریہ کی شادی امریکہ میں ملازمت کرنے والے سافٹ ویئر انجینیئر سمریش سنگھ سے ہوئی۔ بڑے پیمانے پر اصراف کی وجہ سے یہ شادی بھارت بھر میں توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔
پٹنہ میں یہ شادی کافی دھوم دھام سے ہوئی۔ روہنی کے تلک کی رسم کے پروگرام میں وی وی آئی پی مہمانوں کی حفاظت کے لیے 300 پولیس اہلکار اور کمانڈوز تعینات کیے گئے تھے۔
روہنی کی شادی میں سبھی باراتیوں کو نئی چمچماتی کاروں سے دروازے تک لایا گیا تھا۔ اس کے لیے لالو یادو کے سالے اور روہنی کے ماما سادھو یادو اور سبھاش یادو نے میبنہ طور پر آر جے ڈی کے کارکنوں کے ساتھ مل کر شہر کے شو رومز سے زبردستی 45 گاڑیاں اٹھوا لی تھیں۔
اس کے علاوہ رابڑی دیوی کے بھائیوں نے مبینہ طور پر پٹنہ کے نالہ روڈ میں مختلف فرنیچر کی دکانوں سے سو صوفہ سیٹ بھی اٹھوا لیے تھے۔ تاہم شادی ختم ہونے کے بعد یہ سارا سامان شورومز میں واپس رکھوا دیا گیا تھا۔