جب حوثیوں نے سینکڑوں افریقی پناہ گزینوں کو بے دردی سے ہلاک کیا

عینی شاہدین کے مطابق دھوئیں اور افراتفری کے دران پناہ گزین ایک دوسرے کو روند رہے تھے۔ حوثیوں کے مطابق کم از کم 40 افراد دھوئیں اور شعلوں سے دم توڑ گئے۔ جب کہ انسانی حقوق کے گروپس کے مطابق یہ تعداد 450 کے قریب تھی۔

(جب پناہ گزینوں کے مرکز میں آگ لگی۔ تصویر بشکریہ اورومیا ہیومن رائٹس آرگنائزیشن/عرب نیوز)

جب 23 سالہ عبد الکریم ابراہیم محمد حالیہ تشدد کے بعد ایتھوپیا کے اورومیا خطے سے فرار ہوئے تو انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ یمن کے حوثی باغیوں کے چنگل میں پھنس جائیں گے۔

درحقیقت ایتھوپیا سے فرار پونے والے اپنے متعدد ہم وطنوں کی طرح عبدالکریم نے ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا، جس نے یمن میں بغاوت کے بعد درالحکومت صنعا کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا، کے بارے میں سنا بھی نہیں تھا۔

عرب نیوز کے مطابق جب عبدالکریم پہلی بار بحر احمر کے پار اپنے خطرناک سفر پر نکلے تو انہیں امید تھی کہ خیلجی ملک میں مستقبل کے حوالے سے مواقع اور خوشحالی ان کی منتظر ہے۔

ان کے آبائی وطن ایتھوپیا میں صورتحال مزید خوفناک ہو گئی ہے جہاں بڑھتی بدامنی اور سیاسی کشیدگی کے دوران سکیورٹی کی صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی، مسلح گروہوں کے حملوں اور فرقہ وارانہ اور نسلی تشدد نے ہزاروں افراد کو ملک سے فرار ہو کر دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔

عبد الکریم کا حوثی باغیوں سے پہلا پالا ان کے صنعا پہنچنے کے صرف دو دن بعد پڑا جب ملیشیا کے دو جنگجو بازار میں ان کے پاس آئے۔ انہیں بھیڑ سے باہر لے جا کر اپنی شناخت بتانے کو کہا گیا۔

ان کے سفری کاغذات کو بغیر پڑھے بغیر انہیں حراست میں لیا گیا اور انہیں شہر کی امیگریشن ، پاسپورٹ اور نیچرلائزیشن اتھارٹی (آئی پی این اے) ہولڈنگ کے مرکز میں لے جایا گیا جہاں پہلے سے ہی سییکڑوں افریقی پناہ گزینوں کو حراست میں رکھا گیا تھا۔

ان میں 20 سالہ عیسیٰ عبد الرحمن حسن بھی شامل تھے جو صنعا کے ایک ریستوران میں کام کر رہے تھے جب حوثی ملیشیا نے دھاوا بول کر انہیں پکڑ لیا اور حراستی مرکز منتقل کر دیا۔

وہاں انہیں درجنوں دیگر افراد کے ساتھ ایک تنگ ہینگر کے اندر رکھا گیا تھا۔ یہاں آمد کے تین ماہ بعد ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں عیسیٰ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں: ’دیکھو، ہم یہاں کتنی تنگ جگہ پر رہ رہے ہیں۔ ہمارے پاس کھانا اور پانی نہیں ہے۔ یہاں ہمارے پاس بیماروں کے لیے ادویات تک نہیں ہیں اور یواین ایچ سی آر جیسی عالمی تنظیموں کو ہماری پرواہ نہیں کرتی ہیں۔‘

ہیومن رائٹس واچ نے عیسیٰ کی ویڈیو کی طرح حوثیوں کے زیر انتظام حراستی مراکز میں حالات کو بدترین اور بے نظیر قرار دیا ہے جہاں ایک ہینگر میں 550 پناہ گزینوں کو رکھا گیا ہے۔

ان غیر انسانی حالات کو مزید برداشت کرنے سے قاصر تارکین وطن نے 7 مارچ کو بھوک ہڑتال کا آغاز کر دیا۔

اس کے جواب میں کیمپ کے حوثی گارڈز نے ہینگر میں آنسو گیس کے شیل پھینکنے سے پہلے آخری بار کلمہ پڑھنے کو کہا اور فلیش گرینیڈ پھینک دیے جس سے جلد ہی وہاں آگ بھڑک اٹھی۔

عینی شاہدین کے مطابق دھوئیں اور افراتفری کے دران پناہ گزین ایک دوسرے کو روند رہے تھے۔ حوثیوں کے مطابق کم از کم 40 افراد دھوئیں اور شعلوں سے دم توڑ گئے۔ جب کہ انسانی حقوق کے گروپس کے مطابق یہ تعداد 450 کے قریب تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب آگ بھڑک رہی تھی اس وقت عبدالکریم باتھ روم میں تھے ۔ اس طرح ان کی جان بچ گئی لیکن ان کے بازو بری طرح جھلس گئے تھے۔ انہیں سرکاری ہسپتال لے جایا گیا جہاں سینکڑوں متاثرین کے رشتہ داروں اور امدادی ایجنسیوں کو زخمیوں تک پہنچنے سے روک دیا گیا تھا۔

اس خوف سے کہ انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا جائے گا، عبدالکریم وہاں سے فرار ہو گئے۔

اپنے زخموں کے باوجود وہ صنعا میں یو این ایچ سی آر کی عمارت کے باہر اس قتل عام کے خلاف مظاہرے میں شامل ہوئے اور ملزموں سے اس بربریت کا حساب لینے کے لیے بین الاقوامی کارروائی کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے ان تمام افراد کے ناموں ، تعزیت جنازوں اور تاحال لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے لیے بندش کا مطالبہ کیا۔

اورومیا ہیومن رائٹس آرگنائزیشن (او ایچ آر او) کی جانب سے عرب نیوز کے ساتھ شیئر کردہ ایک ویڈیو میں عبدالکریم نے کہا: ’یو این ایچ سی آر نے ہمارے مطالبات پر کان نہیں دھرے۔ احتجاج شروع ہونے کے دو دن بعد یو این ایچ سی آر کا ایک اہلکار باہر آیا اور ہمیں بتایا کہ وہ (ایجنسی کا عملہ) بھی ہماری طرح ہی پناہ گزین ہیں اور وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ 2016 سے پناہ گزینوں کی فائل حوثیوں کے ہاتھ میں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا