ایرانی سرحد پر پیٹرول سمگل کرنے والے چار افراد بھوک پیاس سے ہلاک

بلوچستان کی بارڈر ٹریڈ یونین کے رہنماؤں نے اس صورت حال کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایک ہفتے کے اندر اس مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو مزید اموات ہوسکتی ہیں اور بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

 سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک ویڈیو وائرل ہے، جس میں ایرانی سرحد پر ایک شخص زمین میں کھدائی کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ویڈیو بنانے والا شخص بلوچی زبان میں پوچھتا ہے کہ ’وہ کیا کر رہے ہیں؟‘ تو وہ جواب دیتا ہے کہ ’پانی نکالنے کے لیے کنواں کھود رہا ہوں۔‘

اس دوران وہ اپنے ساتھی کو کہتا ہے کہ ’مجھے اوزار دیں تاکہ میں کنواں مزید گہرائی تک کھود سکوں۔‘

ویڈیو بنانے والا کہتا ہے کہ وہ لوگ یہاں ایرانی سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں جو ڈیزل سے لدے ہیں اور اب صورتحال یہ ہےکہ یہاں پر موجود افراد ڈیزل ملا پانی پینے پر مجبور ہیں۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہےکہ جس جگہ پر یہ لوگ موجود ہیں، وہیں سرحدی فورسز کی ایک چیک پوسٹ بھی موجود ہے۔

یہ ویڈیو 11 اپریل کو ’رسانک نیوز ‘ نامی ادارے نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر جاری کی۔

یہ ویڈیو ایک پیغام تھا کہ صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے، لیکن ضلعی اور صوبائی حکام نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ دوسری جانب ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں سیاسی جماعتوں اور دیگر تنظیموں نے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔

مظاہرین نے سرحد کی بندش اور وہاں پھنسے لوگوں کو نکالنے کا مطالبہ کیا، لیکن یہ آواز بھی وہیں تک محدود رہی۔

بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی علاقوں بلکہ اندرون بلوچستان تک لوگوں کے روزگار کا واحد ذریعہ سرحد سے منسلک کاروبار ہے، جن میں اشیائے خوردونوش سمیت ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ بھی شامل ہے۔

ایرانی سرحد کو پاکستانی حکومت نے محفوظ بنانے کے لیے اس پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا ہے جبکہ باڑ کے ساتھ سرحد پر فرنٹیئر کور  (ایف سی) کی چیک پوسٹس بھی لگائی جارہی ہیں۔

باڑ کے ساتھ لگائی جانے والی چیک پوسٹ سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل لانے اور لے جانے والی گاڑیوں کو چیکنگ کے لیے روکا جاتا ہے۔ ایرانی پیٹرول لانے والوں کے مطابق انہیں ایک چیک پوسٹ پر کافی دیر تک روکا جاتا ہے۔

اس صورت حال نے اس وقت سنگین رخ اختیار کرلیا جب گذشتہ دنوں بارڈر ٹریڈ یونین کے عہدیداروں نے پریس کانفرنس میں اس بات کا انکشاف کیا کہ سرحد پر پھنسنے کے باعث بھوک اور پیاس سے چار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

بارڈر ٹریڈ یونین کا قیام بھی حال ہی عمل میں لایا گیا ہے، جس کا مقصد ایرانی سرحد سے کاروبار کرنے والے افراد کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔

تنظیم کے جنرل سیکرٹری گلزار دوست بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چونکہ اس سے قبل بارڈر ٹریڈ ایکشن کمیٹی کے نام سے ایک تنظیم موجود تھی لیکن وہ غیر فعال تھی اور ایک متحرک اور فعال تنظیم کی کمی محسوس کی جارہی تھی، لہذا ہم نے بارڈر ٹریڈ یونین کی داغ بیل ڈالی۔

وہ کہتے ہیں کہ اس تنظیم کا مقصد بنیادی طور پر سرحد سے کاروبار کرنے والے افراد کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

گلزار دوست بلوچ نے بتایا کہ مکران اور بلوچستان کے ایران سے متصل دیگر سرحدی علاقوں میں روزگار کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان تمام لوگوں کا گزر بسر سرحد کے کاروبار سے ہی وابستہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب چونکہ ایران اور پاکستان کے تعلقات پہلے جیسے نہیں ہیں اور پاکستان ایرانی سرحد کے ساتھ باڑ لگا رہا ہے، جس پر تقریباً 80 فیصد کام مکمل کرلیا گیا ہے، لہذا خدشہ ہے کہ بقایا 20 فیصد کام مکمل ہونے پر یہ سرحد مکمل بند ہوجائے گی۔

ٹریڈ یونین کے نمائندے سمجھتے ہیں کہ یہ صورت حال بلوچستان سے کاروبار کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی بھی سازش ہے، کیونکہ سرحد کے دونوں اطراف کے لوگوں کی کاروبار کے علاوہ آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔

ڈرائیور سرحد پر کیسے پھنسے؟

سرحد پر پھنسے ڈرائیوروں کی صورت حال کے حوالے سے گلزار دوست نے بتایا کہ ’جہاں ایرانی سرحد کے ساتھ باڑ لگائی گئی ہے وہاں 15 سے 20 قدم کے فاصلے پر فرنٹیئر کور کی چیک پوسٹ قائم ہے، جہاں انہوں نے یہ طریقہ اپنایا ہے کہ ہر چیک پوسٹ پر تیل لانے لے جانے والی گاڑی کو چار سے پانچ دن تک روکا جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’اس صورت حال میں ایک گاڑی کو سرحد تک پہنچتے پہنچتے 20 سے 25 دن لگ جاتے ہیں۔ اب مکران جیسا علاقہ جو گرمیوں کے موسم میں شدید گرم ہوجاتا ہے اور یہاں بارشیں بھی نہیں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاخیر کے باعث سرحد پر پھنسے لوگ راشن ختم ہونے کی وجہ سے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔‘

انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ’سرحد پر پھنسے چار لوگوں کی لاشیں یہاں لائی گئی ہیں، جن میں فضل ولد سبزل بلوچ تحصیل تربت، بخش اللہ ولد رحمت اللہ بلوچ تحصیل دشت ضلع کیچ اور مختار بلوچ ولد حمدان شامل ہیں، جو سرحدی علاقے کے رہائشی تھے۔ دوسری جانب ایک اور ہلاک شخص کی شناخت نہیں ہوسکی کیوں کہ لواحقین ان کی لاش لے گئے تھے۔ یہ تمام افراد بھوک اور پیاس کی شدت کے باعث ہلاک ہوئے۔‘

گلزار کے مطابق: ’چونکہ ایرانی سرحد پر پیٹرول اور ڈیزل لانے کے لیے کوئی باقاعدہ سڑک نہیں ہے، اس لیے یہ لوگ غیر روایتی راستوں سے جاتے ہیں۔ ایرانی سرحد کے قریب یہ گاڑیاں ندی نالوں اور پہاڑیوں میں کھڑی کردی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی گاڑی کو باہر نکلنے کے لیے ہزاروں گاڑیوں کو ہٹانا پڑتا ہے، جو ناممکن ہوتا ہے اس لیے وہاں موجود ان ڈرائیوروں، کلینروں اور دیگر لوگوں کا راشن ختم ہوگیا اور بھوک و پیاس کے باعث ہلاکتیں ہوئیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’ہلاک ہونے والے فضل نامی ڈرائیور کے ساتھ موجود کلینر (جو خود بھی بھوک پیاس سے نڈھال تھے) نے بتایا کہ ان کی گاڑی آگے پھنس گئی تھی اور ان کے لیے واپسی کا راستہ بھی بند تھا، لہذا وہ اپنی گاڑی کو موڑ کر واپس بھی نہیں لاسکے، جس سے یہ صورت حال پیش آئی۔‘

بارڈر ٹریڈ یونین کے رہنما نے اس صورت حال کو سنگین قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اگر ایک ہفتے کے اندر مسئلہ کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو مزید اموات ہوسکتی ہیں اور بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

صوبائی حکومت کا موقف

دوسری جانب حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے اپنے ایک بیان میں جلد اس مسئلے کا حل نکالنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

بقول لیاقت شاہوانی: ’پاک ایران سرحد کی بندش سے پیدا ہونے والی صورت حال اور لوگوں کی تکلیف کا حکومت کو احساس ہے اور اس معاملے کو جلد وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھاکر حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔‘

واضح رہے کہ بلوچستان کا مکران بیلٹ شورش سے بھی متاثرہ علاقہ ہے، جہاں پر متعدد مسلح مزاحمتی تنظیمیں برسرپیکار ہیں، جو اکثر اوقات سکیورٹی فورسز پر حملوں میں حملوں میں بھی ملوث ہوتی ہیں۔

اس ضمن میں جب انڈپینڈنٹ اردو نے لیاقت شاہوانی سے رابطہ کرکے مزید تفصیل اور ہلاکتوں کی تصدیق کرنی چاہی تو انہوں نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اس مسئلے کو وفاق کے ساتھ اٹھائیں گے اور جو بھی صورتحال ہوگی اس کے حوالے سے آگاہ کیا جائے گا۔‘

تاہم انہوں نے سرحد پر پھنسے ڈرائیوروں کے ہلاکتوں کی تصدیق یا تردید نہیں کی اور نہ ہی اس حوالے سے فون کال کا جواب دیا۔

ضلعی حکام کی یقین دہانی

گلزار نے بتایا کہ ’آج اس مسئلے کے حوالے سے بارڈر ٹریڈ یونین کے نمائندوں کی کمشنر مکران اور ڈی سی کیچ کے ساتھ ملاقات ہوئی، جس میں انہیں اس مسئلے سے آگاہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ضلعی حکام نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ کل وہ خود ایف سی کمانڈنٹ کے ہمراہ سرحد کا دورہ کریں گے اور پھنسے ہوئے ڈرائیوروں کو راشن کی فراہمی کے ساتھ انہیں نکالنے کی کوشش کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول گلزار: ’حکام نے یہ بھی کہا کہ سرحد پر ایف سی کی چیک پوسٹوں پر ڈرائیوروں کے حوالے سے نرمی لائے جائے گی تاکہ سرحد پر پھنسے لوگ نکل سکیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت بھی ایرانی سرحد کے قریب تقریباً 12 سے 13 ہزار لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔

یونین رہنما سمجھتے ہیں کہ ایرانی سرحد کو مکمل بند کردیا گیا تو یہاں معاشی صورت حال مزید خراب ہوجائے گی۔ اگر اس کاروبار کو باقاعدہ شکل دے کر ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائے تو نہ صرف یہاں اشیائے خور دو نوش کا مسئلہ حل ہوگا بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ دوسری جانب پاکستان کے قومی خزانے میں خاطر خواہ ریونیو بھی جمع ہوسکے گا۔

ایرانی پیٹرول سے منسلک گاڑی کے ڈرائیور کے ساتھ کم  سے کم 10 سے 12 افراد کا ذریعہ معاش منسلک ہوتا ہے۔

مزدور رہنما سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں کی معیشت کا پہیہ سرحدی کاروبار سے چل رہا ہے۔ اگر یہ بند ہو جاتا ہے تو یہاں سوڈان اور صومالیہ جیسی صورت حال پیش آسکتی ہے اور آنے والوں وقتوں میں سرمایہ دار سمیت ہر شعبے کے لوگ سڑکوں پر آجائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان