زندگی زیادہ پیاری ہے یا عید کی شاپنگ؟

بازاروں میں نکل جائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے بندہ نیوزی لینڈ میں آ گیا ہے جہاں کرونا کا کوئی مریض ہی نہیں۔

ایک طرف سخت لاک ڈاؤن کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری جانب عید کی شاپنگ کی اجازت دی جا رہی ہے (اے ایف پی)

اسلام آباد میں چند ماہ قبل ایک عالیشان شادی ہوئی۔ ایسی شادیاں دو یا تین روز نہیں بلکہ ہفتے ہفتے چلتی ہیں۔ مشہور شخصیت کے بیٹے کی شادی تھی تو لوگ بھی بے چین کہ ان کو بھی مدعو کیا جائے اور وہ اس میں شرکت کریں۔

تقریبات میں دولہا کا بھائی آگے آگے رہا۔ اور کیوں نہ رہے، اس کے بھائی کی شادی تھی۔ رسم حنا ہو یا ڈھولکی بھائی حضور نے خوب رقص کیا اور خوب تصاویر بنوائیں۔ لوگوں کو آگے ہو کر ملا اور خوش آمدید کہا۔

لیکن بھائی نے کسی کو یہ نہیں بتایا تھا کہ شادی سے چند روز قبل ہی وہ کووڈ پازیٹو ہو چکا تھا۔ اس کے بقول کورونا ہوا تو کیا ہوا میں اپنے بھائی کی شادی کو کیسے چھوڑ دوں؟

دوسری جانب چند روز قبل اسلام آباد ہی میں نیشنل سیونگز سینٹر جانا ہوا۔ سٹاف نمبر کے مطابق ایک وقت میں دس لوگوں کو اندر آنے کی اجازت دے رہے تھے۔ لوگ بھی ایک دوسرے سے دوری رکھ رہے تھے۔

ایک شخص اپنے تیرہ، چودہ سالہ بیٹے کے ہمراہ بھی آیا ہوا تھا۔ وہاں پر موجود تمام لوگوں کی طرح اس باپ بیٹے نے بھی ماسک پہن رکھے تھے۔ لیکن بیٹے کا ماسک صرف منھ پر تھا ناک کو اس بچے نے کرونا فری زون قرار دیا ہوا تھا۔

ایک خاتون نے آگے بڑھ کر نہایت دھیمے لہجے میں اس بچے سے کہا کہ بیٹا ماسک ناک پر بھی رکھو کیونکہ احتیاط بہت ضروری ہے۔ خاتون کا یہ کہنا تھا کہ باپ نے بیٹے سے کہا، ’جیسے ماسک پہنا ہوا ہے ٹھیک ہے۔‘

پاکستانی ہی صرف ایسی قوم نہیں ہے جو کرونا کو اب بھی کچھ نہیں سمجھتے۔ امریکہ میں دوست سے بات ہو رہی تھی تو اس کا کہنا تھا کہ اس کا قریبی امریکی گورا دوست جو ٹرمپ کا حامی ہے وہ بھی اس وقت تک کرونا کو ایک سازش یا افواہ قرار دیتا رہا جب تک کہ اس کے والدین کو نہیں ہوا۔

ہمارا بھی کچھ یہی حال ہے۔ جب تک کسی قریبی کو اس موذی بیماری کا سامنا نہ کرنا پڑے تب تک ہم اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں۔

ایسے میں وزیر اعظم عمران خان نے ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے کے لیے فوج کو طلب کیا۔ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ’ہم نے احتیاط نہیں کی تو لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا، کرونا ایس او پیز پر عمل کرانے کے لیے فوج بھی پولیس کے ساتھ سڑکوں پر نکلے گی۔‘

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق جمعرات تک پاکستان کے 17 بڑے شہروں اور اضلاع میں کورونا کیسز کی شرح پانچ فیصد سے زیادہ ہے۔ ان شہروں میں چاروں صوبائی دارالحکومتوں سمیت اسلام آباد، راولپنڈی اور گوجرانوالہ شامل ہیں۔

ان کے علاوہ مردان، ملتان، بہاولپور، نوشہرہ، حیدر آباد، مظفر آباد، سوات، فیصل آباد، ایبٹ آباد، اور گلگت میں بھی کورونا کے مثبت کیسز کی شرح پانچ فیصد یا اس سے زائد ہے۔

فوج طلب کرنے کے حوالے سے کافی شور ہے کہ سول ادارے ناکام ہو چکے ہیں اور اگر یہ کام فوج کو سونپ دیا گیا ہے تو سول انتظامیہ اور حکومت کا پیچھے کیا کام رہ گیا ہے؟

انگریزی کی کہاوت ہے give the devil his due۔ ملک کے ہیلتھ سیکٹر کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ گذشتہ سال جب اس وبا نے پاکستان میں سر اٹھایا تو ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ ہیلتھ سیکٹر کی جانب ماضی کی اور موجودہ حکومت کی عدم توجہی کے باعث پاکستان میں بہت برا حال ہو گا۔

لیکن صحت کے شعبے نے نہ صرف کرونا کا بوجھ اٹھایا بلکہ اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ بوجھ کامیابی سے اٹھایا۔

کرونا عمومی طور پر اور اس کی تیسری لہر باالخصوص صرف ملکی نہیں بلکہ عالمی ایمرجنسی ہے۔ اس کے لیے تمام وسائل اور افرادی قوت کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ بازاروں میں نکل جاؤ تو ایسا لگتا ہے جیسے بندہ نیوزی لینڈ میں آ گیا ہے جہاں کرونا کا کوئی مریض ہی نہیں ہے۔ پھر روزانہ کی بنیاد پر مریضوں اور جان گنوا بیٹھنے والوں کے اعداد و شمار پڑھیں تو ہوش اڑ جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ وبا بحرانی شکل اختیار کر چکی ہے اور دنیا بھر میں مختلف ممالک چاہے وہ جمہوری ملک ہے یا آمرانہ اقتدار ہے، وہ ممالک جہاں فوج حکومت کے ماتحت ہے یا وہ ممالک جہاں فوج سیاسی حکومت سے زیادہ اثرورسوخ رکھتی ہے نے اس وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے فوج کی مدد حاصل کی ہے۔

ان ممالک میں برطانیہ، انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور تائیوان شامل ہیں۔ فوج کی ایک قومی کمانڈ ہے جس کے ماتحت نظم و ضبط والی افرادی قوت ہے۔

لیکن حکومت کی دو باتوں سے اتفاق نہ کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ ایک کہ عید کی شاپنگ جلد کر لیں تاکہ بازاروں میں رمضان کے آخری ایام میں بھیڑ بھاڑ نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ کیمبرج کے تحت ہونے والے او اور اے لیول کے امتحانات منسوخ نہ کرنے کا فیصلہ۔

کہا جاتا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔ وبا پھیل رہی ہے، کرونا کے مریضوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، ہر روز گذشتہ روز سے زیادہ افراد جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ تو کیا ایسی صورت میں عید کی شاپنگ ضروری ہے؟ بچوں کو اس خطرے میں ڈال دینا کہ ان کو کرونا ہو اور ان سے ان کے گھر والوں کو ہو کے پیچھے کیا حکمت ہے۔

ایک طرف سخت لاک ڈاؤن کی باتیں ہو رہی ہیں اور دوسری جانب عید کی شاپنگ کی اجازت دی جا رہی ہے، ایک طرف سکول اور متاثرہ علاقوں میں تعلیمی ادارے بند کیے جا رہے ہیں تو دوسری جانب بچوں کو امتحانات کرا کر خطرے کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ