حسن بھائی، میں ایک بار آ ہی جاتا ملنے!

حسن بھائی کو میں نے کبھی فل قہقہہ مارتے نہیں دیکھا۔ کوئی حرکت ایسی نہیں کہ جس سے لگے یہ بندہ جم ٹرینر ہے، کراٹے ماسٹر ہے، لوگ دور دور سے اس کے پاس جوڈو کراٹے سیکھنے آتے ہیں۔ فل چوڑا سینہ، طاقتور سڈول ٹانگیں، بھرپور ڈیل ڈول مگر ایسا پرسکون آدمی، اللہ اکبر!

خالی ورزش یا کراٹے کے استاد نہیں تھے یار، پورا پیکج تھے حسن بھائی (تصاویرچاند)

یہ بڑا سارا ہاتھ، اس میں دو تین انگوٹھیاں، ہاتھ پہ اپنی چھوٹی سی بیٹی فاطمہ کو بٹھایا ہوا، کم از کم چھ فٹ دو انچ قد، دوسرے ہاتھ سے بیٹی کی کمر  تھامی ہوئی کہ سیڑھیوں میں کہیں توازن خراب نہ ہو جائے، چہرے پہ ہمیشہ رہنے والی شفیق ترین مسکراہٹ، ماتھے پہ محراب، گالوں میں ہلکے ڈمپل، عصر کے وقت حسن بھائی روز ایسے سیڑھیاں اترا کرتے تھے۔

ورزش کرنے کے معاملے میں ان کا جم بڑا غریب نواز تھا۔ خوبی یہ کہ بہت کم جگہ میں ڈھیر ساری مشینیں لگی ہوئی تھیں، مزا یہ کہ ایک پہ بندہ لگا ہو تو ساتھ والی مشین پہ ورزش کرنے والا ڈسٹرب نہیں ہوتا تھا۔

سب مشینوں پہ اس زمانے میں لال رنگ ہوا کرتا تھا اور سب کی سب کسٹم بلٹ تھیں۔ مطلب کوئی گوروں شوروں کی بنائی ہوئی امپورٹڈ نہیں، دیسی مگر پرفیکٹ اینگل کے ساتھ۔

آپ داخل ہوئے تو ساتھ ہی الٹے ہاتھ پہ پنڈلیوں کے مسلز بنانے کے لیے مشین ہوتی تھی، اس پہ جیسے آدمی پنجوں کے بل اچکتا ہے، حسب توفیق وزن پر کِلی سیٹ کر کے، اسے دونوں ہاتھوں میں اٹھا، بس وہی کرنا ہوتا تھا۔
شروع شروع کے دن تھے۔

اب اسی وزن کے ساتھ تاریں باندھ کر وہیں ایک سسٹم اور بھی لگا ہوتا تھا، وہ ٹریپز کی ایکسرسائز تھی، مطلب یہ جو گردن اور کندھوں کو ملانے والے مسلز ہوتے ہیں۔

بندہ الٹے ہاتھ میں سیدھی طرف کی تار پکڑتا ہے اور سیدھے ہاتھ میں الٹی سائیڈ، کراس بنا کے ہاتھوں سے، دونوں طرف کی تاریں ملانی ہوتی ہیں۔ آسان لفظوں میں سمجھیں مصلوب ہونے والا سین ہوتا ہے۔

تو اس جم میں ہوتے تھے ایک سینئیر باڈی بلڈر ۔۔۔ اچھا یہ بھی اب ایک کہانی ہے۔ پہلے یہ سنیں۔ جب کوئی بھی نیا شخص جم جوائن کرتا ہے نا تو اسے یہ چار چار پانچ پانچ سال سے ورزش کرنے والے بھائی لوگ بڑا فیسینیٹ کرتے ہیں۔

یہ بڑے ڈولے، چیسٹ ایسے ڈیفائن جیسے سانچے میں ڈھلی ہو، کمر پوری وی شیپ (مطلب الٹے مثلث نما) اور کیا ۔۔۔ مطلب کیا ہی شاندار تراش ہوتی ہے ان لوگوں کی! تو اس زمانے میں جو سینئیر بھائی لوگ ہوا کرتے تھے ہمارے، ان میں عدنان بھائی (نونی)، منٹو، خرم اور معین بھائی (کامریڈ) مجھے یاد ہیں۔

یہ لوگ سب جم میں ایسے فاتحین کی طرح گھوما کرتے تھے، ٹور ہی الگ، سجتی بھی تھی۔ فل ہیوی ویٹ ورک آؤٹ چل رہا ہے، چیخم دھاڑ مچی ہوئی ہے، پورا رعب ہوتا تھا استاد چاروں طرف۔

نئے بچہ لوگ سب کے سب بڑی جلدی میں ہوتے ہیں، خود میں نے کئی بار منٹو بھائی سے پوچھا، خرم بھائی سے پوچھا کہ یار مجھے کتنا ٹائم لگے گا ایسی باڈی بنانے میں۔ سب کے جواب میں کم از کم دو سال کا عرصہ مشترک ہوتا تھا۔

تو ایک دن جم جاتے ہوئے ساتھ میرا ایک دوست بھی آ گیا۔ نونی بھائی اس وقت وہی ٹریپز کی مصلوب نما ورزش پوزیشن میں تھے۔

پورا منہ کھول کے زور کی ہاہ ہ ہ ٹائپ آواز نکالتے اور ڈیڑھ دو سو کلو وزن کا ایک رپ مکمل ہوتا۔ یہ بڑا حیران ہوا، مجھ سے پوچھا، یار کون سے مسل بنتے ہیں یہ ورزش کریں تو؟ نونی بھائی کو آواز آ گئی، ورزش کرتے کرتے بولے ’بیٹے، کانوں کے مسل بناتی ہے یہ ایکسرسائز‘ پورا جم لوٹ پوٹ ہو گیا، حسن بھائی بس ہلکے سے مسکرا دیے تھے۔


حسن بھائی کو میں نے کبھی فل قہقہہ مارتے نہیں دیکھا۔ کوئی حرکت ایسی نہیں کہ جس سے لگے یہ بندہ جم ٹرینر ہے، کراٹے ماسٹر ہے، لوگ دور دور سے اس کے پاس جوڈو کراٹے سیکھنے آتے ہیں۔

فل چوڑا سینہ، طاقتور سڈول ٹانگیں، شدید بھرپور ڈیل ڈول مگر ایسا پرسکون آدمی! اللہ اکبر۔ بھائی نظریں زمین سے نہیں اٹھتی تھیں، زیادہ دیر آپ سے ڈائریکٹ آنکھ ملا کے بات نہیں کرتے تھے۔

مختصر بات، ٹو دی پوائنٹ، ساتھ چھوٹی سی تسبیح چل رہی ہوتی، مکمل نماز روزے کے پابند اور ہمیشہ ٹی شرٹ ٹراؤزر میں رہنے والے۔ کل فوت ہو گئے حسن بھائی۔

مر ہی جائیں گے، میں بھی، آپ بھی، لیکن یار کچھ تصویروں کے مرنے کا یقین نہیں آتا۔ حسن بھائی اب ایک تصویر ہی تھے میرے لیے۔ ایک یاد تھے۔

اٹھانوے ننانوے کے بعد اس جم کا رخ میں نے کیا ہی کب تھا۔ تو ایسے چوڑے چکلے حسن بھائی کیسے ایک دم چلے گئے؟ پورے دو سال گھوم گئے آنکھوں میں۔ خالی ورزش یا کراٹے کے استاد نہیں تھے یار، پورا پیکج تھے حسن بھائی، ایک ماحول، ایک تہذیب، ایک اطمینان، سر تا پا شفقت اور بارش کی پھوار جیسا دھیما پن، یہ ویہار شاید انہیں سے سیکھا۔

اس کی شکل بار بار یاد آتی ہے، نام یاد نہیں، حسن بھائی کا ایک چھوٹا بھائی تھا، دبلا پتلا، کافی چھوٹا اور بڑا لاڈلا، اس کی شرارتیں بھی وہ اگنور کر جاتے تھے۔ وہ اب ماشاللہ بھرپور جوان ہو گا۔

کل ایسے ہی انگوٹھا چلا رہا تھا، ایک پوسٹ گزری، کوئی 20 سال بعد حسن بھائی نظر آئے، یا اللہ خیر، یہ نہ ہوا ہو بس ۔۔۔ وہی ہوا! وہ ہنی کی پوسٹ تھی۔

ہم سارے اسی جم جایا کرتے تھے ڈیرے اڈے ملتان، فون کیا رات کو ساڑھے بارہ بجے ’ہنی ۔۔۔ یار تجھے کس نے کنفرم کیا؟‘ خبر بہرحال درست تھی۔

دو تین روز پہلے یہاں تک لکھا تو صبح چار کا ٹائم تھا۔ سو گیا۔ آج کالم مکمل کرنے لگا تو شدید دل کیا کہ یار حسن بھائی کا افسوس تو کر لوں ان کے بھائیوں سے۔

ہنی کے پاس ہی نمبر تھا اس چھوٹے کا، لاڈلے کا، ’چاند‘ اس نے بتایا تو یاد آ گیا نام، حسن بھائی اسے چاند کہتے تھے۔ چاند کو فون کیا، پوچھا کیسے، اچانک؟ چاند کہتا ہے کہ بس گلا ان کا خراب رہتا تھا، ٹانسلز کا مسئلہ ہو جاتا، اس دن تھوڑی طبیعت ڈاؤن ہوئی ایک دم، بلڈ پریشر لو ہوا تو ہمارے ضد کرنے پہ چلے گئے ہسپتال۔ 

ڈاکٹروں نے ٹیسٹ وغیرہ دیے، کروا لیے، گھر آ گئے۔ شام کو طبیعت پھر سے خراب ہوئی، ہسپتال پہنچے ہی تھے کہ بس آدھے گھنٹے کے اندر انتقال ہو گیا۔

چاند سے میں نے حسن بھائی کی تصویریں مانگیں، دم رخصت تک کی سب اس نے بھیج دیں۔ آخری وقت تک عین ایسے ہی تھے جیسے ہمارے سامنے ہوتے تھے۔ بس واپسی کے سفر میں ڈمپل نہیں تھے، ایک سوتا مسکراتا چہرہ تھا۔

میں پوری ایمان داری سے بتاؤں تو حسن بھائی میرے لیے ایک ہیرو تھے۔ فل طاقتور آدمی لیکن جیسے کسی پیر نے کہا ہے کہ بیٹے گردن نہیں اٹھانی، لڑنا نہیں۔

انہیں دیکھ کر مجھے سمجھ آتی تھی کہ طاقت ہو تو اسے استعمال کیسے نہیں کرنا، اور اب تک کی زندگی میں اس خوبی کی واحد مثال میرے سامنے وہی تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اور چاند، اس دبلے پتلے چاند کو حسن بھائی نے اتنی محنت کروائی کہ وہ دو سال تو مسٹر ملتان رہا اور پتہ نہیں کتنے مقابلے کراٹے کے جیتے۔

’یہ سب تیاریاں مجھے کاکو بھائی اور حسن بھائی نے کروائیں، کراٹے کی چیمپئین شپ، بلیک بیلٹ مقابلے، پنڈی، لاہور، جہاں کچھ ہوتا تھا مجھے بھیجتے تھے کہ جا، کھیل کے آ، حسنین بھائی یقین کرو باپ مرنے کا پتہ نہیں چلا، یہ مرا ہے نا، یقین کرو یتیم ہو گئے ہم لوگ سارے، قسم خدا کی یتیم ہو گئے۔‘ اس کی آواز رندھ گئی۔

حسن بھائی کبھی سو، دو سو، ہزار ۔۔۔ ایسی فیس نہیں لیتے تھے۔ وہ اسے طاق عدد بنوا کر، روپیہ ایک یا تین اوپر رکھ کے، پھر فیس بتاتے تھے۔

یہ عادت اپنے کچھ بزرگوں کے بعد آخری بار بس انہی میں دیکھی تھی۔ ایسے شگن دینا، رقم دینا، وصول کرنا، باعث برکت سمجھا جاتا تھا۔

حسن بھائی کی لکھی ہوئی یہ رسید پچھلے سال اکتوبر میں فیس بک پہ لگائی۔ ایک پرانے بٹوے میں رہ جانے والی بسری یاد تھی۔

کسی دوست نے کمنٹ کیا کہ یار اب کے ملتان جاؤ تو مل لینا۔ پوری نیت کر لی۔ گیا تو بھول گیا۔ پھر ابھی مہینہ ڈیڑھ پہلے دل کیا کچھ شغل میلہ ہو، ڈمبل اٹھائے تھے کہ سارے سبق یاد آ گئے۔

کلائی کیسے رکھنی ہے، ہاتھ کہاں تک لے کے جانا ہے، واپس کہاں تک لا کے پھر اٹھانا ہے۔ پورا آرٹ ہے یار، اور سکھانے والے صرف حسن بھائی تھے۔ دوبارہ سوچا، اس بار تو ضرور جاؤں گا۔ بس رہ گیا۔

چاند نے بتایا بیٹی فاطمہ اب بی ایس آنرز میں ہے۔ خدا کامیاب رکھے بیٹی، بھائی حسن کا پرسہ قبول کرو، مالک حوصلہ دے۔

محمد احمد حسن بھائی، خدا کے حوالے۔ موسم ہی ایسا ہے، درختوں کے ہاتھ خالی ہیں، سبز لفظوں میں بس یاد ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ