سیاسی لیبارٹریاں کب تک؟

یہ حکومت مخالف تحریکیں اچانک کیسے بن جاتی ہیں اور انہیں کون مخصوص پارٹیوں کے ووٹ کاٹنے کے لیے استعمال کرتا ہے؟

تحریک لبیک پاکستان کے سابق سربراہ مرحوم خادم حسین رضوی کی تصویر اسلام آباد میں ایک گاڑی پر لگی ہوئی ہے (اے ایف پی فائل)

 

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


پاکستان میں جمہوری نظام اور حکومتوں کو کبھی سکھ کا سانس لینے نہیں دیا گیا اور نہ ہی انہیں دائیں بائیں دیکھے بغیر اطمینان سے حکومت کرنے یا اپنے انتخابی وعدوں پر عمل درآمد کا موقع دیا گیا ہے۔

پچھلی تین جمہوری حکومتوں کو مسلسل بحرانی کیفیتوں سے دوچار رکھا گیا۔ ان کے لیے روزانہ کی بنیاد پر مختلف ریاستی اداروں کی مدد سے نت نئے مسائل کھڑے کیے گئے۔

تحریک انصاف کی حکومت بھی ایک صفحہ پر ہونے کی تمام تر سہولتوں کے باوجود ان دائمی مسائل کا شکار ہے۔ حال ہی میں اس نے تحریک لبیک کے چیلنج کا سامنا کیا۔ حکومت اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ اگر اس نے وضع کردہ لائنوں سے انحراف کیا یا آزادانہ پالیسیاں بنانے کے بارے میں سوچا تو یہ مسائل دوبارہ نمودار ہو سکتے ہیں۔

یہ دائمی سیاسی مسائل کس کے پیدا کردہ ہیں اور ان سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔ اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس میں ایک بات مشترک نظر آتی ہے۔ اکثر تاریخ دان اور دانشور اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ان مسائل کے ڈانڈے مبینہ طور پر کہیں نہ کہیں ریاست کے اندر سے ملتے ہیں۔

ماضی میں ایجنسیوں کے بعض سربراہان نے بھی ان مسائل کو تخلیق کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ جنرل حمید گل اور جنرل اسد درانی کے انکشافات اس سیاسی انجینئرنگ کے واضح ثبوت ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد سے لے کر ایم کیو ایم اور ٹی ایل پی تک آپ کو مختلف ریاستی ایجنسیوں کے ہاتھ واضح نظر آتے ہیں۔ نوبت اس تک آئی کہ حکومتی افسران سرعام حکومت مخالف مظاہرین کو گھر واپس جانے کے لیے خرچہ دیتے ہوئے نظر آئے۔ حالیہ انکشافات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان حکومت مخالف مظاہرین کی مخصوص ٹی وی چینلز پر نشریات کا اہتمام بھی ویسے نہیں ہوا۔

یہ حکومت مخالف تحریکیں اچانک کیسے بن جاتی ہیں اور انہیں کون مخصوص پارٹیوں کے ووٹ کاٹنے کے لیے استعمال کرتا ہے؟ ان کے پاس عوام کو جمع کرنے اور اپنی تنظیمی قوت بڑھانے کے لیے سرمایہ یکایک کہاں سے آ جاتا ہے؟

اسلامی جمہوری اتحاد کیس کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان حکومت مخالف تنظیموں کو مالی اداروں سے وسائل کیسے مہیا کرائے جاتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ کیسے بظاہر ان طاقتور تنظیموں کو جب ان کی ضرورت نہیں رہتی تو ریاستی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے پراسرار طریقوں سے ختم کر دیا جاتا ہے۔

 اس سلسلے میں ایم کیوایم کی مثال فورا سامنے آتی ہے۔ اس تنظیم نے کراچی کو تقریبا 30 سال تک مختلف سلامتی کے اداروں کی بھاری موجودگی کے باوجود یرغمال اور دہشت زدہ رکھا مگر جب اس تنظیم کی افادیت ختم ہوئی تو انہی اداروں کے ذریعے راتوں رات اس کی سیاسی موت کا اہتمام کر دیا گیا۔ اس تنظیم کی دہشت گردی سے سینکڑوں افراد نے اپنی جان گنوائیں۔ کیا اس تنظیم کے خالقین سے اس کا کبھی حساب لیا جا سکے گا؟

کیسے عذیر بلوچ جیسی شخصیت کو بڑا کردار مل جاتا ہے اور وہ ایک پورے علاقے پر سلامتی کے اداروں کی بھاری موجودگی کے باوجود حکمران بن جاتا ہے اور اپنے علاقے کے تمام جرائم کی کھلی سربراہی کرتے نظر آتا ہے۔ پھر طویل عرصے تک ان کے خلاف کوئی قانونی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ مگر جب اس کی افادیت ختم ہوتی ہے تو اس دہشت کے نشان کو ایک بٹن دبا کے بند کر دیا جاتا ہے اور اس پر دنیا بھر کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ مگر شاید اب مستقبل قریب میں اس کی ضرورت دوبارہ پڑے گی جس کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ انصاف کے اداروں سے ان الزامات سے بری کرائے جا رہے ہیں۔

ملکی سکیورٹی اداروں کے بنیادی کاموں میں ملکی سلامتی کو یقینا بنانا شامل ہے لیکن عوام اس کے باوجود ایک لمبے عرصے تک دہشت گردی کا شکار رہے۔ ہر روز بیرونی ایجنسیوں کے پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے مگر ان کے تخریبی اقدامات کو روکنے میں ناکامی کے بارے میں تمام لب خاموش رہتے ہیں۔ متعلقہ حکام سے ان کی کارکردگی کے بارے میں استفسار کرنا غداری شمار کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ اداروں کا کام بدعنوانی، منشیات کی روک تھام اور سمگلنگ کا خاتمہ کرنا ہے مگر وہ حکومت کے سیاسی مخالفین کو بلیک میل کرنے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے انٹرویو واضح طور پر بتاتے ہیں کہ کیسے اس ایجنسی کو اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے سیاسی مخالفین کی سرکوبی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

سیاسی معاملات میں دلچسپی کی وجہ سے پاکستان ایک محفوظ ملک ہونے کی بجائے ایک سیاسی لیباٹری دکھائی دیتا ہے جس میں کچھ لوگوں کی خواہشات اور ادارہ جاتی مفادات اور بالادستی کے لیے نت نئے سیاسی تجربے کیے جاتے ہیں۔

ادارہ جاتی بالادستی کے اس کھیل میں ہم کیوں مسلسل اس ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار بنائے ہوئے ہیں؟ اس عدم استحکام کی وجہ سے ہم اس وقت جنوبی ایشیا کے بہت سارے ممالک سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہماری معاشی بدحالی کی وجہ سے ہماری کرنسی افغان کرنسی سے بھی کمزور دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان کے سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ان اہم سلامتی کے اداروں کو اپنے بنیادی آئینی اور قانونی کام کی طرف واپس لوٹایا جائے۔

یہ ایک مشکل کام ہے لیکن اگر تمام سیاسی قوتیں اس پر متفق ہوں تو اس کو آسانی سے عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اس میں سب سے بڑی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ اسے موجودہ مخاصمت کی پالیسی کو ترک کر کے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر ریاستی اداروں کو اپنے آئینی دائرہ اختیار میں لانا ہو گا ورنہ جلد یا بدیر اسے خود بھی ان کے سیاسی کھیل کا نشانہ بننا پڑے گا۔

حکومت کو دوسری بڑی جماعتوں کے ساتھ مل کر پارلیمان میں ان کے بارے میں نئے قوانین متعارف کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو پارلیمان کے سامنے جوابدے بنایا جا سکے۔ پاکستان میں جمہوریت اس ایک قدم سے مضبوط اور فروغ پاسکتی ہے اور منتخب حکومتیں اپنے انتخابی وعدوں پر اطمینان سے عمل درآمد کرانے کی کوشش کر سکیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ