بھارت پر کرونا کا قہر

جس ملک کے ہسپتالوں میں 10 ہزار مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر اور 50 ہزار سے زائد کے لیے ایک بیڈ ہو، کیا اس ملک کے وزیر اعظم کو سردار پٹیل کے مجسمے پر دو ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے چاہیے تھے؟

کرونا کے ایک مریض کو غازی آباد میں گاڑی کی پچھلی نشست پر آکسیجن مہیا کی جا رہی ہے (اے ایف پی)

 

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


بھارت کی سڑکوں پر کرونا کا قہر دیکھ کر یہ خیال بار بار ذہن کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ بھارت سمیت بعض ملکوں میں قوم پرستی کی لہر کے پیچھے اگر اپنی سرحدوں کو محفوظ اور اپنے عوام کی قومی شناخت کو جگا کر انہیں خودکفیل یا ’آتم نربھر‘ بنانا مقصود تھا تو وہ جان لیوا وائرس کے شکار مریضوں کو بیڈ جیسی بنیادی سہولت فراہم کرانے کی اہلیت سے محروم کیوں ہیں؟

مذہبی جنون کی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی بجائے اگر یہ پیسہ ہسپتال میں بستروں، آکسیجن اور ادویات پر لگتا تو عالمی برادری کے سامنے جھولی پھیلانے کی شاید پھر نوبت نہ آتی۔

جو کل تک بھارت کو ’دنیا کا دواخانہ‘ کہتے تھے آج ان کے پاس عوام کے لیے دوائی بھی موجود نہیں۔ ویکسین بنانے والے سب سے بڑے ملک کو اپنے لوگوں کو ٹیکہ دینے کے لیے امریکی خام مال کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔

کرونا (کورونا) وائرس نے جہاں بیشتر ملکوں کی خود کفالت کے داعووں کو بےنقاب کر دیا ہے وہیں یہ بات ثابت بھی کر دی کہ عالمگیریت کے بعد سرحدوں کو قوم پرستی یا قومی شناخت کے دائروں میں بند کرنا مشکل ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو وائرس نے سرحدوں کو پھلانگ کر دنیا میں کہرام نہ مچایا ہوتا۔

بشیر بدر نے ان ہی حالات کی عکاسی میں کہا تھا کہ

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے

جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

اگر بھارت کی قیادت نے فرقہ پرستی، مذہبی منافرت اور اونچی یا نیچی ذات کے معاملوں میں الجھانے کی بجائے عوام کی بہبود پر توجہ مرکوز کی ہوتی، جس کے لیے بھاری اکثریت سے اسے انتخابات میں کامیاب کیا گیا تھا تو شاید اس وقت بھارت کی وہ حالت نہیں ہوتی جو دنیا نے میڈیا چینلوں پر دیکھی۔

پانچ ٹرلین معیشت کا خواب دکھانے والی لیڈرشپ پر افسوس کا اظہار کیا تاہم عوام کے لیے امداد اور عطیات کی دوڑ شروع کر دی۔

امریکہ کے معروف ماہر طب ڈاکٹر آشیش جہا اس بات پر زور نہیں دیتے کہ ’بھارت میں کرونا کی صورت حال اگلے دو ہفتوں میں اس سے بھی بدتر ہوسکتی ہے۔ اس کے پیش نظر حکومت اس پر قابو پا نے کی اہل ہے نہ اس مرض سے فورا چھٹکارا پانے کی امید کی جاسکتی ہے بلکہ خطرہ یہ ہے کہ وائرس بھارتی حدود کے باہر پھر پھیل سکتا ہے لہذا امریکہ، برطانیہ اور دوسرے ملکوں کو بھارت کی فوری طبی امداد ہی نہیں بلکہ صحت عامہ کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنے کی بڑے پیمانے پر مالی امداد کرنی ہوگی۔‘

بیشتر ملکوں نے طبی امدادی کھیپ سے بھرے طیارے بھارت کے لیے روانہ بھی کر دیئے۔

امریکی عوام کی حالت بھارتیوں سے بھی بدتر ہوئی ہوتی اگر ڈونلڈ ٹرمپ گذشتہ برس انتخابات میں کامیاب ہوئے ہوتے۔

انہوں نے ابتدا میں بھارتی پارلیمان کے رکن کی طرح ماسک پہننے پر سوال اٹھائے اور کرونا کو غیرملکی قرار دے کر لاکھوں جانوں کا زیاں ہوتے پرواہ نہیں کی تھی۔

میں تو سمجھتی ہوں کہ امریکی عوام کو کسی غیبی طاقت نے بچایا جو انتخابات میں بائیڈین جیتے اور انہوں نے کرونا وائرس سے نمٹنے کو پہلی ترجیح قرار دیا۔

احتیاط، ماسک، ٹیسٹ اور پوری آبادی کے لیے ویکسین کا انتظام کر کے عوام کو بچایا جس کی بدولت معیشت سنبھل گئی حالانکہ انہوں نے بھی ’امریکہ فرسٹ‘ کو بچانے کا منتر دہرایا۔

بائیڈن نے چند روز پہلے ہی ویکسین کا خام مال غریب ملکوں کو دینے کا اعلان اس وقت کیا جب بھارت نے اس پر پابندی اٹھانے کی اپیل کی۔

بھارت میں حالات اتنے ابتر کیوں ہوئے حالانکہ بیشتر عالمی اداروں اور ماہر طب نے بھارتی حکومت کو اس کے بارے میں خبردار بھی کیا تھا جس کا اعتراف ڈاکٹر آشیش جہا نے ایک انٹرویو میں کیا مگر عوام کو ہندوتوا کی لہر میں ایسے جکڑ لیا گیا ہے کہ وہ بھی وائرس کے خوف سے غافل ہوگئے۔

ہندوتوا پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ جس وقت دنیا کے بیشتر ممالک کرونا پر قابو پانے کا جہاد لڑ رہے تھے اور بھارت کی مختلف ریاستوں میں وائرس میں مبتلا ہزاروں افراد ہسپتالوں میں داخل ہو رہے تھے۔

عین اسی وقت کمبھ میلے میں کروڑوں ہندوؤں کی شرکت پر سرکار کی باچھیں کھل رہی تھیں، مغربی بنگال اور دوسری ریاستوں میں انتخابی ہجوم دیکھ کر ہندوتوا کے رہنما اپنی جیت کے جشن کی تیاری کر رہے تھے۔

کمبھ میلے میں لاکھوں لوگ دریائے گنگا میں ایک ساتھ ڈبکی مار کر خود کو ’پوتر‘ تو کر رہے تھے مگر لکھنو کے ڈاکٹر مہیش ترپاٹھی کے مطابق ہر ڈبکی مارنے والا خود ایک مہلک وائرس میں تبدیل ہوتا جا رہا تھا جس کو اوسطا پہلے دس اور پھر نہ جانے کتنے افراد کو متاثر کرنے کی اہلیت حاصل ہو رہی تھی۔

سرکار نے فورا میڈیا کو پابند کر دیا کہ کمبھ میلے کا ذکر بھی نہ کیا جائے۔

ڈاکڑ ترپاٹھی کہتے ہیں کہ ’ذمہ دار اور حساس سرکار ہوتی تو کمبھ میں شریک ہر شخص کو تلاش کرکے اس کا ٹیسٹ کرواتی، قرنطینہ میں رکھتی اور اس کی قربت میں آنے والوں کا پتہ لگاتی، ہسپتالوں کو ہنگامی بنیادوں پر بیڈ، آکسیجن اور ادویات مہیا کرتی مگر ہماری حکومت نے صرف ٹوئٹر پر مودی کی تنقید کرنے پر پابندی لگا دی اور ان مریضوں کی جائیداد ضبط کرنے کی وارننگ بھی دی جو اگر آ کیسجن یا ادویات کی کمی کی شکایت کرتے دیکھے گئے۔

لوگ کتے بلیوں کی طرح سڑکوں پر مر رہے ہیں، گلی کوچوں میں لاشیں سڑ رہی ہیں، کروڑوں عوام سانس لینے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔

اتنی بے بسی اور مریضوں کی اتنی بےحرمتی بھارت میں پہلی بار دیکھی گئی۔ اس سے اچھا تھا کہ یہ ملک آزاد ہی نہ ہوا ہوتا۔‘

مغربی بنگال سمیت کئی ریاستوں میں انتخابی ریلیوں میں عوام کے بڑے ہجوم دیکھ کر ہندوتوا کے رہنما یہ کہتے ہوئے سینہ پھلا رہے تھے کہ اتنے بڑے مجموں سے اپوزیشن کی کمر ٹوٹ گئی ہوگی۔

کاش اس کا ادراک بھی کیا ہوتا کہ ان مجموں سے ان لاکھوں خاندانوں کی کمر ٹوٹ جائے گی جنہیں آکسیجن سیلنڈر کے لیے ہر ہسپتال سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑے گا۔

بیڈ نہ ملنے کے باعث آٹو رکشہ میں زندگی سے ہاتھ دھونا ہوگا اور ادویات کے لیے بیچ راہوں میں بیٹھ کر بھیک مانگنی ہوگی۔

جس ملک کے ہسپتالوں میں دس ہزار مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر اور پچاس ہزار سے زائد کے لیے ایک بیڈ ہو، کیا اس ملک کے وزیر اعظم کو سردار پٹیل کے بت پر دو ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے چاہیے تھے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اتنی موٹی رقم سے آپ بھارت کے تمام ہسپتالوں کے لیے کم از کم بیڈ تو خرید سکتے تھے تاکہ مریضوں کو کار پارکنگ میں تڑپ تڑپ کر مرنا نہ پڑتا۔

دہلی کے شہری رام پرساد جن کی ماں ہسپتال میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے کرونا سے فوت ہوئیں کہتے ہیں کہ ’کتنا اچھا ہوتا کہ مودی نے ہنودتوا کو پھیلانے سے پہلے ملک کے شعبہ صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا ہوتا۔

عوام کے لیے دو وقت کی روزی کمانے کے وسائل پیدا کرتا، منافرت کو ہوا دینے کی بجائے تشدد اور بدامنی کو روکتا، عوام کے حقوق سلب کرنے سے باز آجاتا اور دوسرے ملکوں پر چڑھائی کی دھمکیوں سے اجتناب کرتا۔

اس کے بعد اپنا ملک، اپنے ہندو اور اپنی قوم کا پٹارا بجاتا تو شاید ایسی بدترین صورت حال کا سامنا نہ ہوتا جو بھارت کے کروڑوں عوام کو کرونا کی بڑھتی لہر اور مفلوج نظام کے بدولت آج کل سہنا پڑ رہا ہے۔‘

مدراس ہائی کورٹ کی جانب سے انتخابی کمیشن کے خلاف یہ حکم نامہ جاری کرنا معنی تو رکھتا ہے کہ کمیشن کے اہلکاروں پر کرونا سے ہونے والی ہلاکتوں کے لیے مقدمہ کرنا چاہیے مگر کاش کسی عدالت کی جانب سے یہ حکم نامہ بھی جاری ہوا ہوتا کہ جن رہنماؤں نے بڑی ریلیاں بلا کر عوام کی بھاری موجودگی کو سراہا اور پھر انہیں وائرس سے تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے بے یارو مددگار چھوڑا وہ ان لاکھوں ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں۔

انہیں بھی قاتلوں کی فہرست میں شامل کیا جاتا تاکہ آئندہ کوئی بھی اقتدار ملنے کو انسانیت کا خون کرنے کا لائسنس نہ سمجھتا۔


نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ