ذکر اک ٹھنڈے کمرے کا

سول سروسز میں اصلاحات ایک سنجیدہ موضوع، انتظامی اور خالصتاً غیرسیاسی معاملہ ہے، جسے پوری نیک نیتی سے سدھارنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو حصہ ڈالنا ہوگا۔

(ٹوئٹر ویڈیو گریب)آپا فردوس نے ہجوم کے درمیان کھڑے ہو کر دل کی بھڑاس نکالی

 

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں کلک کرنے سے سن بھی سکتے ہیں


شدید گرمیوں میں گذشتہ برس نجانے کیا سوجھی افسر شاہی میں پھنسے ایک بظاہر معمولی سے کام کو نمٹانے اسلام آباد سے کراچی چلی گئی۔

یہی کوئی آٹھ، دس چکر کراچی کے ایک گنجان علاقے میں واقع ڈی سی آفس کے لگائے۔ عملہ ایک فائل غائب کر چکا تھا اسی کی تلاش تھی۔ ایک ادھیڑ عمر کا مرد کلرک سارا دن بزرگ پنشنرز کو پھر کبھی آنا کہہ کر کسی اور دن پہ ٹال دیتا۔ فائلوں میں کبھی خود کو کھپاتا اور کبھی چائے پینے کے بہانے سیٹ سے غائب ہو جاتا۔

ایک خاتون کلرک کو جب دیکھا وہ ہاتھ میں بٹن والی تسبیح لیے ورد کرتی ملیں۔ مخاطب کوئی کر لے تو تنک بولتیں ’اپنا نمبر دے جائیں آپ کو کال کر کے بتا دوں گی۔‘ اس کریکٹر پہ تھوڑی ریسرچ کی تو پتا چلا میاں کے انتقال کے بعد سرکاری کوٹے سے نوکری ملی ہے، میڈم نے کچھ نہ کرنے کی قسم کھائی ہے۔

اس سے اگلے کمرے کے باہر ڈومیسائل کے لیے آنے والوں کی قطار لگی تھی۔ کچھ راہداری کی دیوارسے کمر ٹکائے زمین پہ بیٹھے تھے۔

کلرکوں کے کمروں سے تھوڑا آگے چلیں تو بورڈ لگا تھا اسسٹنٹ کمشنر۔۔۔

یہ اندھیرے میں ڈوبا کمرہ تھا، جہاں میز بکھری ہوئی تھی، کمپیوٹر کے سامنے اسسٹنٹ کمشنر کے پرسنل اسسٹنٹ بیٹھے تھے۔ میں نے کلرکوں سے مایوس ہو کر افسر تک پہنچنے کی ٹھانی۔ مطلوبہ فائل کا پوچھا تو جواب ملا کہ اگلے ہفتے چکر لگا لیں۔ میں نے اصرار کیا تو کہا کام نہیں ہو سکتا اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ باہر گئی ہیں۔

کافی دیر بعد بھی میں ملنے پہ بضد رہی تو کہا گیا ایک پرچی پہ اپنا تعارف لکھ دوں، میڈم آئیں گی تو دیکھ لیں گی۔ یہ مشقت بھی کر لی مگر ملاقات کی کوئی سبیل نہ ہوئی۔

کچھ دیر میں دیکھا تو آفس بوائے ٹرے میں چائے سجائے کمرے میں جا رہا تھا۔ میں نے سوچا جب میڈم نہیں تو یہ مدارات کس کی؟ زبردستی اندر گئی تو دیکھا بڑے سے کمرے میں سامنے ایک نوجوان اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ بیٹھی تھیں۔ شاید مجھ سے عمر میں چھوٹی ہی ہوں گی۔

میں نے فائل والی پوری کہانی سنائی اور کہا کہ آپ لوگ تو بزرگوں کا یہی حال کرتے ہوں گے، ان پہ کیا گزرتی ہوگی۔

وہ میری جھنجھلاہٹ درگزر کر گئی۔

میں نے سیدھا سوال پوچھا کہ ’کیا آپ نے سیکرٹری کو کہا ہے کہ کوئی پوچھے تو کہہ دو کہ میڈم دفتر میں نہیں وزٹ پہ گئی ہیں؟‘

اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ میرے سوال کے لیے تیار نہ تھیں اسی لیے بغیر لگی لپٹی کہنے لگیں ’آپ یہ بھی پوچھیں کہ سسٹم ہمارا کیا حال کرتا ہے۔ سیاست دان، وزرا، مشیر اور افسران کے پریشر الگ موضوع ہے اسے تو رہنے ہی دیں۔ اے سی کا عہدہ اور اے سی والا کمرہ ضرور ملا ہے مگر عملہ وہی ہے جسے ایک فائل لانے کا کہیں تو سات دن نکال لیتے ہیں۔

’یہاں عملہ نہیں سیاسی جماعتوں کے کارکن پوسٹ ہیں، مرحوم ملازمین کے اہل خانہ کی کوٹے پہ بھرتیاں ہیں، کچھ کی ریٹائرمنٹ نزدیک ہے، اکثر کو کمپیوٹر پہ کام نہیں آتا، کئی رشوت خور یا نکمے ملازمین کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے، کوئی کام نہ کرنے پہ اینٹھ جائے تو پھر چاہے جتنی سرزنش کر لوں کام نہیں ہوگا، اور بہت سے ایسے ہیں جنہیں ایک اپنے سے کم عمر عورت کے آرڈر ماننے میں انا آڑے آتی ہے۔‘

ایک ماہ قبل ہی نئی پوسٹنگ کے بعد آئی وہ نوجوان خاتون افسر اکتائی ہوئی لگ رہی تھی۔ادھر مجھے شدید کوفت ہو رہی تھی کہ اسسٹنٹ کمشنر مسائل حل کرنے کی بجائے دکھڑے سنانے لگ جائے تو ہم عوام کہاں جائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہی وہ دن تھا جب میں نے کراچی کے اس بڑے ڈی سی آفس کے لان میں ایک بابا جی کو زمین پہ بیٹھ کر ہیٹ سٹروک سے ہانپتے دیکھا، ادھر میڈم کا کمرہ سرد خانہ لگ رہا تھا۔ جب اے سی کی ٹھنڈک سے انگلیوں کی پوریں نیلی ہونے لگیں تو میں نے اجلت دکھائی کہ کام کر دیں ورنہ میں جاؤں۔ اس لڑکی نے گھنٹی بجا کر کلرک کو بلایا، فائل منگوائی۔

کوئی آدھ گھنٹے کے بعد کلرک آیا، میڈم بیچاری کو سمجھا بجھا کر چلا گیا کہ پلندوں سے فائل نکالنے کا کام لمبا ہے، ہفتہ دس دن اور لگیں گے۔

اتنی بےجان سی اسسٹنٹ کمشنر کو دیکھ کر مجھے غصہ  آیا اور ترس بھی۔ میں سمجھ گئی تھی کہ یہ نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوش شکل خوش لباس، لائق اور قابل لڑکی سول سروس اکیڈمی کی ٹریننگ کے اثر سے باہر نہیں آئی، سسٹم چلانا دور کی بات ہے اسے ابھی سسٹم سمجھنے میں وقت لگے گا۔

جب میڈم بیچاری کو بھی بہانہ سننا پڑ گیا تو میں نے مشورہ دیا کہ ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر گھنٹی بجانے کی بجائے باہر نکلیں، ہاتھ پہ ہاتھ دھرے جو کلرک بیٹھے ہیں ان سے پوچھ گچھ کریں، چائے، کھانا، سیگریٹ اور نماز کے وقفوں کے درمیان تو جو کام کے چند گھنٹے بچتے ہیں اس دوران عملے کے ساتھ کھڑی ہو کر دیکھیں تو سہی کہ یہ فائلیں کس بلا کا نام ہے۔ حکومت پاکستان نے ایک ضلع کی چابی آپ کو دے کر کرتا دھرتا بنا ہی دیا ہے تو  لوگوں کے کام آئیں۔

چند روز قبل وزیر اعظم کی مشیر فردوس عاشق اعوان نے جس طرح اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ سونیا صدف کو سرعام بےعزت کیا وہ قابل مذمت ہے۔

مذمت اس لیے کیونکہ بیوروکریسی کو اگر سیاست کی گند میں لتھیڑیں گے تو رہی سہی پرفارمنس کی بھی فاتحہ پڑھ لیں۔

آپا فردوس نے ہجوم کے درمیان کھڑے ہو کر دل کی بھڑاس نکالی، گالم گلوچ بھی کر ڈالی مگر اس ہائی بلڈ پریشر کے دورے کا مقصد بیوروکریسی کا احتساب، اصلاح، درستگی، دکھی انسانیت کی خدمت یا گلے سڑے پھلوں پہ سرزنش کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے سیاسی محرک کارفرما تھا۔

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ فردوس عاشق کی ڈانٹ ڈپٹ بلکہ گالم گلوچ سے بیوروکریسی سدھر جائے گی، انہیں کو شاباشی دے رہے ہیں کہ افسر شاہی کو درست سبق سکھایا، جوابدہ کر لیا۔ تو پھر سڑکوں پہ ڈنڈے اٹھا کر اپنے تئیں حکومت کی اصلاح کو نکلے ہجوم اور وزیر اعظم کی تعلیم یافتہ مشیر میں کیا فرق رہ گیا؟

 سول سروسز میں اصلاحات ایک سنجیدہ موضوع، انتظامی اور خالصتاً غیرسیاسی معاملہ ہے، جسے پوری نیک نیتی سے سدھارنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو حصہ ڈالنا ہوگا۔ نظام مضبوط ہوگا تو نہ مجھے کسی نوجوان اسسٹنٹ کمشنر کو ٹھنڈے کمرے سے نکلنے کا مشورہ دینا پڑے گا نہ ہی وزیر اعظم اور ان کے مشیران کو اچانک بغیر پروٹوکول، فوٹو سیشن زدہ چھاپوں کی ضرورت پڑے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ