کیا ویکسی نیشن صرف امیروں کا حق ہے؟

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں امیر لوگوں کی زندگیوں کو غریب لوگوں کی زندگیوں پر فوقیت حاصل ہے۔

کرونا کی وبا سے نکلنے کا سفر ویکسی نیشن سے شروع ہو کر ویکسی نیشن ہی پر ختم ہوتا ہے (اے ایف پی)

دنیا کے امیر ترین افراد دنیا کی کل آبادی کا ایک فیصد ہیں لیکن ان کے پاس دنیا کے چھ ارب 90 کروڑ لوگوں سے دوگنی دولت ہے۔

غربت کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم آکسفیم کے یہ اعداد و شمار بتانے کے لیے کافی ہیں کہ دنیا میں ارتکاز دولت کی ناہمواریاں کس سطح پر ہیں۔

دنیا کے 25 امیر ممالک کی آمدنی غریب ممالک سے 415 گنا زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کرونا کی وبا آئی تو غریب ممالک کی صحت کا ڈھانچہ دگرگوں ہونے کی وجہ سے وہاں عوام کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی ایک حالیہ مثال انڈیا کی ہے جہاں مریضوں کی لیے آکسیجن ہے اور نہ ہسپتالوں میں بستر، اور پھر پاکستان جیسے ممالک ہیں جہاں کرونا کے دوران خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 24 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد ہو چکی ہے۔

کرونا کی وبا سے نکلنے کا سفر ویکسی نیشن سے شروع ہو کر ویکسی نیشن ہی پر ختم ہوتا ہے۔ لیکن ویکسین بنانے والی کمپنیوں کو جو آرڈر ملے وہ امیر ممالک سے ملے کیونکہ ان کے پاس پیسے تھے جبکہ غریب ممالک ابھی تک سستی ویکسین کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔

عالمی ادارہ اطفال کے مطابق کم آمدنی والے ممالک نے ویکسین خریدنے کا پہلا معاہدہ جنوری 2021 میں یعنی امریکہ اور برطانیہ کے معاہدوں کے آٹھ ماہ بعد کیا۔

30 مارچ 2021 تک ویکسین کی 86 فیصد خوراکیں امیر ممالک یا ان ممالک نے خریدی تھیں جن کا شمار درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوتا ہے جبکہ اس عرصے میں غریب ممالک تک صرف 0.1 فیصد خوراکیں ہی پہنچ سکی تھیں اور ظاہر ہے کہ یہ خوراکیں بھی ان ممالک کی اشرافیہ کے لیے ہی تھیں۔ جبکہ ویکسین خریدنے کے اگلے چھ ماہ کے آرڈرز کو بھی دیکھا جائے تو امیر ممالک ہی ٹاپ پر نظر آتے ہیں۔

بلوم برگ اور جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق ابھی تک 79 غریب ممالک میں سے کم از کم 47 ملک ایسے ہیں جہاں ابھی تک کسی ایک فرد کو بھی ویکسین نہیں لگائی جا سکی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں امیر ممالک میں ایک سیکنڈ ایک شہری کے حساب سے ویکسین لگائی جا رہی ہے۔

ابھی تک دنیا میں ایک ارب 19 کروڑ ویکسین کی خوراکیں تقسیم کی جا چکی ہیں۔ امریکہ کی 45، برطانیہ کی 52، اسرائیل کی 60، جرمنی کی 30، ترکی کی 17، برازیل کی 14، انڈیا کی آٹھ، بھوٹان کی 63 اور بحرین کی 40 فیصد آبادی کو ویکسین لگ چکی ہے۔

کرونا کی وبا کی وجہ سے عالمی تجارتی سرگرمیاں بہت متاثر ہوئی ہیں۔ خام مال کی ترسیل غریب ممالک سے ہوتی ہے جس کی وجہ سے کئی اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایک حالیہ جائزے کے مطابق اگر ترقی پDیر ممالک نے اپنے شہریوں کی جلد ویکسی نیشن نہ کروائی تو اس سے عالمی معیشت کو نو کھرب ڈالر کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالمی ادارہ صحت نے ایک خصوصی مہم ’کوویکس‘ کے نام سے شروع کی ہے جس کا مقصد ویکسین کی فراہمی میں جاری غریب اور امیر ممالک کے فرق کو ختم کرنا ہے۔ تاکہ ان 92 غریب ممالک کے شہریوں کو بھی ویکسین لگائی جا سکے جو از خود ویکسین خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی فند قائم کیا گیا ہے جس میں امریکہ نے اڑھائی ارب ڈالر اور جرمنی نے 1.1 ارب ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے ویکسین بنانے والی کمپنیوں کو از خود آرڈر دینے شروع کر دیے ہیں تاکہ وہ ممالک جن کے آرڈر تاخیر سے ملنے کی وجہ سے انہیں ویکسین بر وقت نہیں مل سکی انہیں عالمی ادارہ صحت کے توسط سے ویکسین مل سکے۔

30 مارچ تک عالمی ادارہ صحت نے 70 ممالک کو تین کروڑ 29 لاکھ ویکسین کی خوراکیں فراہم کر دی تھیں جن میں سے زیادہ تر ممالک غریب تھے اور انہیں یہ خوراکیں عطیہ کی گئی تھیں۔

عالمی ادارہ صحت کا ہدف ہے کہ 2021 کے آخر تک وہ دو ارب خوراکیں تقسیم کرے گا جس میں سے ایک ارب 30 کروڑ خوراکیں عطیہ کی جائیں گی۔ لیکن اگلے ایک سال کے دوران دنیا کے بالغ افراد کی اکثریت کو ویکسین لگانے کے لیے 35 سے 45 ارب ڈالر درکار ہوں گے، اور عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کرونا کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کے لیے کم از کم 70 فیصد آبادی کو ویکسین لگانے کی ضرورت ہے۔

ویکسین کی غریب ممالک تک جلد از جلد ترسیل کے لیے ضروری ہے کہ اگر ویکسین کے پیٹنٹ پر سے پابندی اٹھا لی جائے تو غریب ملکوں کی کمپنیاں بھی از خود یہ ویکسین بنا سکیں گی۔ مگر ڈبلیو ٹی او میں دی گئی سو سے زائد ممالک کی یہ درخواست امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے گذشتہ ماہ رد کر دی تھی جس سے یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے حامل کچھ لوگ اپنے منافع کوانسانی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں۔

البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ ویکسین کا پیٹنٹ ختم کرنے پر زور دے رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا کہ یہ تیسری دنیا کے نعمت سے کم نہیں ہو گا۔ 

ویکسین بنانے والی فائزر کمپنی اس سال 15 سے 30 ارب ڈالر کمائے گی، موڈرنا بنانے والی کمپنی 18 سے 20 ارب ڈالر، جانسن اینڈ جانسن 10 ارب ڈالر اور ایسٹرا زینیکا دو سے تین ارب ڈالر کا منافع کمائے گی۔

پاکستان میں ابھی تک صرف 30 لاکھ خوراکیں لگائی جا سکی ہیں جو کل آبادی کا ڈیڑھ فیصد کے لگ بھگ بنتا ہے۔

ابھی تک پاکستان میں روزانہ 40 ہزار لوگوں کو ویکسین لگائی جا رہی ہے اور اگر یہی رفتار رہی تو دو سالوں میں صرف دس فیصد آبادی کو ہی ویکسین لگائی جا سکے گی۔

لیکن وزیراعظم کے مشیرِ صحت ڈاکٹر فیصل سلطان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ سال کے آخر تک وہ سات کروڑ آبادی کوویکسین لگانے کا ہدف حاصل کر لیں گے اور اس مقصد کے لیے پاکستان میں ہی کین سائنو نامی چینی ویکسین کی 30 لاکھ خوراکیں ہر ماہ بھری جائیں گی۔

اس کے علاوہ آج یعنی جمعے کو کوویکس کے تحت ایسٹرا زینیکا کی ویکسین کے 12 لاکھ ٹیکے پاکستان کو مل رہے ہیں، جب کہ پاکستان وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک بیان کے مطابق پاکستان کو اس پروگرام کی مد میں ڈیڑھ کروڑ ٹیکے ملیں گے۔

اس کے علاوہ نجی شعبے کو بھی ویکسین برآمد کرنے کی اجازت مل گئی ہے، اور روسی ویکسین سپتنک وی اب تک 50 ہزار کے قریب افراد کو لگائی بھی جا چکی ہے، اور مستقبل قریب میں مزید ویکسینیں آنے کی توقع ہے۔

اس کی روشنی میں امید ہے کہ اس سال کے آخر تک ملک کی خاطر خواہ آبادی کو ویکسین لگ چکی ہو گی، البتہ اس کی مقدار اتنی نہیں ہو گی جتنی ’ہرڈ امیونٹی‘ حاصل کرنے کے لیے درکار ہے، یعنی 70 فیصد آبادی۔

ویکسین کی قلت کا شکار صرف پاکستان نہیں ہیں، اس میدان میں دنیا کے سو سے زائد غریب ملک اس کے شانہ بشانہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں امیر لوگوں کی زندگیوں کو غریب لوگوں کی زندگیوں پر فوقیت حاصل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت