دوسری عالمی جنگ کے بعد اتحادی و غیر اتحادی اقوام نے کان پکڑ کے توبہ کی کہ اب جنگ نہیں کرنی۔ جنگ کی بجائے دفاع کیا جائے گا مگر دفاع کے لیے بھی کسی کا حملہ آور ہونا تو ضروری ہوتا ہے یوں بھی جنگ کی معیشت سے بڑی کیا معیشت ہو گی؟
پس جنگیں تو جاری رہیں بس میدان جنگ دور دور کر دیئے گئے اور اصل کرداروں کی بجائے پراکسی لڑنے لگی۔ فاتح، مفتوح کی جبلت کو تسکین دینے کے لیے شاید غیر شعوری طور پہ کھیل کے میدان ہی جنگ کے میدان بن گئے۔
اپنے اپنے ملکوں کے جھنڈے لے کر، اپنے ملکوں کی جرسیاں پہن کر جب کھلاڑی میدان میں نکلتے تھے تو انسان کے اندر دبی مبارزت طلبی کی حس کو سکون ملتا تھا۔
کھیل کے میدان اور جنگ کے میدان میں ایک فرق رہا کہ جنگ میں ہارنے والے کے برعکس کھیل میں ہارنے والے کو بھی مسکرانا سکھایا جاتا ہے۔ جیتنے والے کو جیت سنبھالنے کا وقار سکھایا جاتا ہے۔ یہ چیز ہوتی ہے سپورٹس مین سپرٹ۔
اب آتے ہیں کرکٹ کی طرف۔ انگریز جاتے جاتے دیگر بہت سی روایات کی طرح ہمیں کرکٹ بھی دے گیا۔ کرکٹ کا یہ کھیل پاکستان میں ایسا ہی مقبول ہے جیسا کہ دنیا میں فٹ بال کا کھیل ہے۔
ہماری اس کھیل سے عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان کو ہم نے سالم ملک پلیٹ میں رکھ کر دے دیا تھا کہ لو یہ تم لے لو۔ حالانکہ اسی دور میں جہانگیر خان سکواش کی دنیا میں اس سے کہیں زیادہ نام اور مقام بنا چکے تھے مگر انہیں ہم نے سکواش فیڈریشن کی سربراہی بھی دینا پسند نہیں کی۔
وجہ وہی کہ ہمیں من حیث القوم کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاو ہے۔ کرکٹ کی دنیا میں پاکستان نے بڑا نام کمایا اور ظاہر ہے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں نے مال بھی کمایا۔ تو یوں یہ محبت فزوں سے فزوں تر ہوتی چلی گئی۔
ہوتے ہواتے بات ایشیا کپ تک آپہنچی۔ یہ ٹورنامنٹ ایک ایسے وقت میں منعقد ہورہا ہے جب پاکستان اور انڈیا دو روایتی حریف ایک تازہ تازہ جنگ کے بعد کرکٹ کے میدان میں آمنے سامنے ہیں۔
میدان میں موجود یہ گیارہ بارہ بچے جن پہ دنیا کی تقریبا آدھی آبادی نظر گاڑے بیٹھی ہوتی ہے، ان کے کندھوں پہ اس وقت بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اپنے نام، اپنے کیرئیر، اپنی ذات سے بڑھ کے اپنے ملک کی عزت، خارجہ پالیسی اور اب اپنی اپنی فوج کی انا بھی۔
پچھلے کچھ میچز میں پہلے تو یہ بحث چلی کہ ہم نہیں کھیلتے، جب کھیلنے پہ آئے تو کہا کہ ہم ہاتھ نہیں ملائیں گے اور پھر جب جیت گئے تب اس بات پہ روٹھ گئے کہ ہمیں چھ صفر کا اشارہ کیوں کیا؟
اس قسم کی صورتحال میں مجھے اکثر فلمی گانے یاد آجاتے ہیں، انڈیا کا ہی ایک فلمی گانا ہے؛
میں پیدل سے جا رہا تھا
انہو سائیکل سے آ رئی تھی
کیا ٹرنگ ٹرنگ کا اشارہ
ہمیں بدنام کیا نا
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صورت حال کچھ ایسی بن گئی۔ ہونی نہیں چاہیے تھی۔ کھیل کو کھیل رہنے دینا چاہیے تھا۔ نہ انڈیا کی طرف سے کھیل کے میدان میں جنگ کا دھواں پھیلانا چاہیے تھا اور نہ ہی یہاں سے ٹرنگ ٹرنگ کے اشارے ہونے چاہیے تھے مگر اب تالی دونوں ہاتھوں سے بج چکی ہے۔
تالی کی اس گونج ہی میں کل انڈیا پاکستان ایک بار پھر آمنے سامنے ہوں گے۔ انڈیا کی ٹیم اس وقت فل فارم میں ہے ۔پاکستانی ٹیم کا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ گیارہ کے گیارہ لڑکے، پہلے پندرہ اوورز میں آوٹ بھی ہو سکتے ہیں اور محیرالعقول ریکارڈ بھی بنا سکتے ہیں۔ ان پہ کوئی شرط نہیں لگ سکتی۔
رہے ہم عوام تو ہم آج سے ہی باجے واجے لے کے، کل رات کے لیے میچ دیکھنے کو مستعد ہیں۔ جو جہاں بیٹھ کے بلڈ پریشر اور ایڈرنلین بڑھا سکتا ہے وہ وہاں کا قصد کر چکا ہے۔
ہم جیسے کمزور دل افراد نے گو تہیہ کر رکھا ہے کہ میچ نہیں دیکھنا، لیکن سکور پوچھنے کی تو مناہی نہیں ہے اور اگر قسمت سے سکور صفر چھہ ہوا تو سوشل میڈیا پہ موجود ہمارے پڑوسی دوست ناراض ہو جائیں گے کہ کیا ٹرنگ ٹرنگ کا اشارہ ہمیں بدنام کیا نا؟
بڑی نازک صورت حال ہے۔ ٹرافی جدھر بھی جائے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ ضرور ہونا چاہیے، دل ملیں نہ ملیں، ہاتھ ضرور ملانے چاہیں۔ یہ کھیل ہے ، یہاں جنگ سے زیادہ بڑا جگرا کرنا پڑتا ہے۔ ملتے ہیں، کل میدان میں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔