فلسطینی انتخاب کا التوا، درپردہ عوامل

رام اللہ میں فلسطینی قیادت کے اجلاس [29 اپریل] کے دوران محمود عباس کا مجلس قانون ساز کے انتخاب ملتوی کرنے کا فیصلہ فلسطینیوں کی انتہا درجے کی توہین تھی۔

ایک شخص 29 اپریل 2021 کو مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر ہیبرون میں ایک کافی شاپ میں فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے آئندہ فلسطینی انتخابات کے حوالے سے ٹیلی ویژن پر تقریر اپنے فون کے ذریعے ریکارڈ کر رہا ہے (اے ایف پی)

فلسطینی قومی زندگی کے دو دھماکا خیز عوامل ایسے ہیں جن کی وجہ سے مظلوم فلسطینیوں کی زندگی میں حقیقی تبدیلی کا خواب ایک مرتبہ پھر شرمندہ تعبیر ہونے سے رک گیا۔

پہلی تباہی تو فلسطینیوں کی صفوں میں ایسی قیادت کی موجودگی ہے کہ جو اپنے داخلی فیصلے دشمن اور مخالفین کی منظوری کے بغیر کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ فلسطینیوں کی مشکلات اگر قیادت کی بزدلی تک موقوف رہتیں تو بڑی بات تھی، لیکن یہاں تو اپوزیشن بھی ایسی نکلی کہ جس کا سیاسی لائحہ عمل بےیار ومددگار قیادت کا مرہون منت نکلا۔

رام اللہ میں فلسطینی قیادت کے اجلاس [29 اپریل] کے دوران محمود عباس کا مجلس قانون ساز کے انتخاب ملتوی کرنے کا فیصلہ فلسطینیوں کی انتہا درجے کی توہین تھی۔ اس فیصلے کے ذریعے ابو مازن نے فلسطینی سیاسی قوتوں اور جماعتوں کو ان کی اوقات یاد دلا دی۔ انتخاب ملتوی کرنے کے اعلان کے ساتھ فلسطینی قضیہ کے حل کے لیے قومی اتفاق رائے اور مصالحت کی وہ کوششیں بھی زمین بوس ہو گئیں جن سے مسئلہ فلسطین کے حل کی جزوی امید پیدا ہوئی تھی۔

انہی کالموں میں ہم خبردار کرتے چلے آئے ہیں کہ محمود عباس اور ان کی جماعت ’فتح‘ القدس میں انتخابات کی اجازت سے متعلق اسرائیلی انکار کو فلسطین میں انتخابی عمل سے فرار کے لیے بطور ڈھال استعمال کر سکتے ہیں تاکہ وہ فلسطینیوں کی امیدوں کی ناکامی کا بوجھ ایک مرتبہ پھر صہیونی قیادت پر ڈال کر اپنی ناجائز مدت صدارت میں توسیع کروا لیں۔

فلسطینیوں کے درمیان مصالحت کی کوششوں کے ناقد متعدد تجزیہ کار بھی اس بات کا شد ومد سے مطالبہ کرتے چلے آئے ہیں کہ فلسطینی تنظیموں کے درمیان صلح کے معاملے پر محمود عباس کی یو ٹرن کی تاریخ سامنے رکھتے ہوئے صرف ان کے بیانات پر تکیہ نہ کیا جائے بلکہ ٹھوس ضمانتوں کی بنیاد پر فلسطینی گروپوں کے درمیان مصالحت کی کوششوں میں ہاتھ بٹایا جائے۔ مصالحت کے معاملے میں صرف فلسطینی قیادت یا محمود عباس پر تکیہ کرنا عقل مندی نہیں ہو گا ۔۔۔ اور پھر وقت نے ان خدشات کو درست ثابت کر دیا، لیکن اب کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!

غاصب صہیونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینی قیادت جو منصوبہ لے کر اٹھی ہے اس کی بیل منڈھے چڑھانا، جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ فلسطینیوں کا مقابلہ عالمی طاقتوں کی حمایت یافتہ بین الاقوامی صہیونی تحریک سے ہے جو عالمی اداروں کے ساتھ اپنے موڈ کے مطابق معاملہ کرنے کی عادی ہے۔

اسرائیلی اپنی مرضی کے خلاف فلسطینی فیصلوں کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ یہ بات اب ڈکھی چھپی نہیں رہی کہ فلسطینی قیادت کو اپنے ہم وطنوں سے صلح کے لیے’اسرائیلی دشمن‘ کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ ایسی نام نہاد فلسطینی حکومت کو اپنے ہم وطنوں کی صفوں میں بیداری کے لیے بھی نیتن یاہو کے گرین سگنل کا انتظار رہتا ہے۔ اسی لیے محمود عباس، اسرائیلی وزیر اعظم کی لمبی عمر کے لیے دعاگو رہتے ہیں؟!

فلسطینی تنظیموں کے درمیان مصالحت کا آغاز گذشتہ برس موسم گرما میں ہوا۔ اس مشکل کام کی شروعات بہت سے خدشات اور امکانات کے جلو میں ہوئیں کہ شاید اس مرتبہ فلسطینیوں کی داخلی سیاست کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکے۔

’فتح‘ کی قیادت کے بغیر مصالحت کا عمل شروع کرنا ناممکن تھا کیوں کہ رام اللہ میں حکمران جماعت کے ہاتھ میں تنظیم آزادی فلسطین [پی ایل او] اور فلسطینی اتھارٹی کی قیادت ہے۔ حکمران جماعت ’فتح‘ ہی کو فی الوقت عرب اور بین الاقوامی حمایت حاصل ہے۔ اس روڈ میپ پر چلنا سب سے زیادہ محفوظ تھا کیونکہ ہدف تک پہنچنے کی خاطر اس کی راہ میں خطرات سب سے کم تھے۔

فلسطینیوں کے مصصم ارادے کی برکت سے صہیونی دشمن اور دنیا کو قضیہ فلسطین کی صداقت باور کرائی جا سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے ’فتح‘ کی عاقبت نا اندیش قیادت نے ایشو کو اپنی جاگیر بنانے کی کوشش کی اور خود کو عقل کل سمجھ کر دشمن کے سامنے تر نوالا بنا کر پیش کیا۔ اس کے بعد کا منظر زبان حال سے ناکامی کی ایک نئی داستان سنا رہا ہے۔

اس رویے کے بعد فلسطینی اشو خود پسند اور اقتدار کے نشے میں مست قیادت کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بن کر رہ گیا۔ صہیونی قبضے سے آزادی کی تمام کوششیں اسرائیلی دشمن کی برتری اور قبضے کو جواز فراہم کرنے کے سوا  فلسطینیوں کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکیں۔

فلسطینی انتخاب ملتوی کرنے کا فیصلہ آئسولیشن میں نہیں کیا گیا بلکہ متعدد عوامل نے اس کی راہ ہموار کی۔ سرفہرست ’فتح‘ تنظیم کی صفوں میں انتشار ایسا اہم نقطہ تھا کہ جو محمود عباس کے لیے ہمیشہ سوہان روح بنا رہا۔ انتخابی امیدواروں کی تینوں لسٹوں نے محمود عباس کے نام پر اپنے تحفظات ظاہر کیے۔

روز اول سے ہی ابو مازن کو اپنی لسٹ کی شکست کا خوف دامن گیر رہا۔ رائے عامہ کے مختلف جائزوں میں ’فتح‘ کے اہم مخالف گروپ حماس کی کامیابی کا بھی عندیہ ظاہر کیا جاتا رہا، جس کی بنا پر محمود عباس متذبدب رہے مبادہ حماس کی انتخاب میں کامیابی کے بعد اسرائیل نتائج تسلیم کرنے سے انکار ہی نہ کر دے۔

اس طرح ابو مازن کی مقبولیت کا پول کھلنے کے ساتھ اقتدار بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ نیز کچھ عرب دارالحکومتوں کی طرف سے حماس کی کامیابی پر تحفظات نے بھی محمود عباس کو 31 مئی کے انتخابی عمل کی بساط لپیٹنے پر مجبور کیا۔

امریکہ اور یورپی ملکوں کی جانب سے فلسطینی انتخابات کے حق میں کیا جانے والا پروپیگینڈا بھی صرف محمود عباس کی کامیابی سے مشروط تھا۔ اگر فلسطینی اپنی حقیقی نمائندہ حکومت کا چناؤ کرتے ہیں تو عالمی طاقتوں کے لیے ایسا جمہوری عمل اتنا ہی ناگوار ہو سکتا ہے جتنا 2006 میں ہونے والے شفاف انتخاب کا نتیجہ جس میں حماس نے فلسطینی مجلس قانون ساز کی 75 نشتیں حاصل کیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اندریں حالات محمود عباس نے انتخاب کے التوا کا ’کڑوا گھونٹ‘ بھرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد سے وہ فلسطینیوں کے غیظ وغضب کا شکار بن رہے ہیں۔ اس فیصلے سے ان کی ساکھ اور عوامی مقبولیت سمیت ان کی جماعت ’فتح‘ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ وہ حماس کی کامیابی کے اعادے کے مقابلے میں عوام میں خواری کو اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ جلد یا بہ دیر وہ ایک مرتبہ پھر اقتدار کے سنگھاسن پر براجماں ہوں گے جہاں وہ اپنے حامیوں اور اتحادیوں کو انتخاب ملتوی کرنے کے فیصلے کے فوائد پر لمبے بھاشن دیتے دکھائی دیں گے۔ ایک دو ہفتے تک فلسطینیوں کی طرف سے ’اخلاقی گراوٹ‘ ایسے الزامات برداشت کر لینے میں ہی ان کی سیاست اور اقتدار کی بقا کا راز مضمر ہے۔

حالیہ چند دنوں کے دوران بیت المقدس کے عرب [فلسطینی] باسیوں کی دلیرانہ جدوجہد اور باب العامود میں اسرائیلیوں کے ساتھ ہونے والی مدبھڑ سے یہ بات ثابت ہو گئی تھی کہ اسرائیلیوں سے بیت المقدس میں انتخاب کی اجازت لینا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ فلسطینی تنظیموں نے قومی مصالحت کے ایجنڈے پر اتفاق کرتے ہوئے یہ بات دو ٹوک انداز میں منوائی تھی کہ صہیونی دشمن کے خلاف مزاحمت باہمی اختلافات خاتمے کے منصوبے کا بنیادی نقطہ ہو گی، لیکن محمود عباس نے کسی ایسی مزاحمتی کارروائی کا ساتھ دینے کی بجائے انتخاب ملتوی کر کے بیت المقدس پلیٹ میں سجا کر ایک مرتبہ پھر اسرائیل کے حوالے کر دیا۔

فلسطینی قیادت کو چاہیے تھا کہ وہ بیت المقدس میں انتخاب کو قومی اشو کے طور پر دنیا کے سامنے لانے کے لیے فلسطینی جماعتوں کو سرجوڑ کر بیٹھنے کی دعوت دیتی تاکہ دشمن کو وہاں انتخاب کرانے کی اجازت دینے پر مجبور کیا جاتا۔

چوتھی مرتبہ حکومت بنانے میں ناکام اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی موجودگی میں یہ معاملہ قومی اتفاق رائے کی صورت میں پورے فلسطین کی آواز بنتا تو یقیناً عرب اور بین الاقوامی حمایت بھی ان کے شامل حال ہوتی، مگر صد حیف کہ ابو مازن ایک مرتبہ پھر چند کلیوں پر قناعت کر گئے اور اہالیاں فلسطین کا مقدمہ مزاحمت کے میدان میں ان کی جیت کے باوجود، ہار گئے۔ انہوں نے اپنے ساتھ فلسطینی قوم کو بھی شرمندہ کروایا۔

فلسطینی مجلس قانون ساز کے 15 برس بعد ہونے والے انتخابات کا التوا معمولی قدم نہیں تھا۔ اس فیصلے سے اعتماد اور ساکھ جیسے دو بنیادی اصولوں پر کاری ضرب لگی ہے کیونکہ فلسطینیوں کے باہمی اختلافات ختم کرنے کے لیے ہونے والے مذاکرات کی بنیاد اعتماد اور ساکھ پر ہی رکھی گئی تھی۔

انتخاب کے التوا سے یہ تاریخی موقع بھی ضائع ہوگیا کیونکہ فلسطینی گروپوں نے کھلے دل اور انتہائی اخلاص کے ساتھ قومی اتفاق رائے کے لیے مصر میں سجائی گئی مذاکرات کی میز کو عزت بخشنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے اپنی حماقت سے اس موقع کو طویل تاریخی بحران میں بدل دیا جس کی قمیت انہیں جلد یا بدیر ادا کرنی پڑے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ