لکڑی کی بجائے بانس کا بلا زیادہ بہتر: تحقیق

ایک تحقیق کے مطابق بانس سے تیار بلے کے درمیانے حصے (سویٹ سپاٹ) سے یارکر پر چوکا مارنا بہت آسان ہے لیکن اس بلے سے باقی شاٹس بھی اچھے سے لگائے جاتے ہیں۔

بانس سے تیار بلے چین، جاپان اور جنوبی امریکہ میں کثرت سے استعمال کیے جا رہے ہیں: ڈاکٹر درشیل شاہ  (پکسابے)

ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ بانس سے تیار کرکٹ کا بلا روایتی طور پر بید کے درخت (willow) سے تیار بلے کا بہترین متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق روایتی بلے کے مقابلے میں بانس سے تیار بلا اپنی صلاحیت کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے جبکہ یہ کرکٹ کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

جریدے دی گارڈین کے مطابق یونیورسٹی آف کیمرج میں ہونے والی اس تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر درشیل شاہ کا کہنا ہے کہ 'ولو کی لکڑی صدیوں سے کرکٹ کے بلے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے لیکن اتنے زمانے تک زیرِ استعمال رہنے کے بعد انگلش ولو کی رسد کو مسائل کا سامنا رہا ہے۔

’ولو کا ایک درخت 15 سال میں تیار ہوتا ہے جبکہ اس کے نئے درخت لگانا بھی لازمی ہے۔ اس کے علاوہ ولو سے تیار بلے کی تیاری میں 15 سے 30 فیصد تک لکڑی ضائع ہو جاتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر درشیل، جو خود بھی تھائی لینڈ کی انڈر 19 ٹیم کے لیے کھیل چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک بلے باز کا خواب ہے۔ بانس سے تیار بلے کے درمیانے حصے (سویٹ سپاٹ) سے یارکر پر چوکا مارنا بہت آسان ہے لیکن یہ اس کے علاوہ باقی شاٹس میں بھی مدد دیتا ہے۔‘

ان کے مطابق بانس کو اگانے پر وقت اور لاگت دونوں کم آتے ہیں۔

’اس کے لیے ہمیں اپنی تکنیک کو تھوڑا بدلنا ہو گا تاکہ اس کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔ تاہم اس بلے کے ڈیزائن میں بھی بہتری لانی ہو گی۔‘

ڈاکٹر درشیل کے مطابق بانس سے تیار بلے چین، جاپان اور جنوبی امریکہ میں کثرت سے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ